کبھی چشمِ شوق سے منعکس، کبھی لوحِ دل پہ لکھا ہُوا

کبھی چشمِ شوق سے منعکس،کبھی لوحِ دل پہ لکھا ہُوا

ہے میانِ شیشۂ شہرِ جاں،ترا اسمِ نور سجا ہُوا

ترے لمسِ خواب کی طلعتیں،ہیں عیاں سپیدۂ صبح سے

ترے لمحہ لمحہ طلوع سے،ہے خیالِ رفتہ جُڑا ہُوا

مری صبحِ شوق کی تابِ کُل!کبھی میرے قریۂ شب میں آ

مرا حرفِ چشم ہے منتشر،مرا نطقِ دل ہے بُجھا ہُوا

مجھے دے خبر مرا راہبر،مری جاں کہاں ، مرا دل کدھر

وہ تھے جاتے وقت جو ہمسفر،دمِ واپسیں اُنہیں کیا ہُوا

شبِ با مُراد مچل ذرا،مری دید دید میں ڈھل ذرا

کسی یادِ کیف کا ہاتھ ہے مرے رتجگے پہ دھرا ہُوا

اُسے کیا خبر کسی غیر کی،اُسے کیا غرض کسی اور سے

ترے خوانِ ناز کے عرش پر،جو ترا گدا ہے پلا ہُوا

اِسے اپنے عرشِ قدوم میں گھڑی دو گھڑی کی پناہ دے

کہ یہ دشتِ زیست کا راہرو بڑی دیر سے ہے تھکا ہُوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]