کسی بھی عشق کو ہم حرزِ جاں بنا نہ سکے

انا کا بوجھ تھا اتنا کہ کچھ اٹھا نہ سکے

فصیلیں ساری گرا دیں جو درمیان میں تھیں

دلوں کے بیچ کی دیوار ہی گرا نہ سکے

ہزار حرفِ خوش آہنگ تھے بہم لیکن

مزاجِ کلک کی تلخی کبھی چھپا نہ سکے

سبھی کے غم کئے تصویر ہم نے شعروں میں

کسی کے غم کا مداوا مگر بتا نہ سکے

سبھی کو آئنہ توفیق بھر دیا ہم نے

خود اپنے عکس پہ نظریں کبھی جما نہ سکے

دلوں کا حال خدا جانتا ہے خوب ظہیرؔ

خدا گواہ کہ تم ہی کبھی نبھا نہ سکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]