کسی خیال کی لے پر تھرک رہے ہیں ہم

کہیں کہیں سے مسلسل اٹک رہے ہیں ہم

کسی کی آنکھ گئی دیکھنے دکھانے میں

کسی کی ایک نظر کی جھلک رہے ہیں ہم

فضا میں ٹوٹ کے بکھرے اور آپ آ جائیں

کسی ستارے کو مدت سے تک رہے ہیں ہم

ہر ایک رنگ سے خوشبو کو ہم نے دیکھا ہے

چمن سے تیری گلی تک سڑک رہے ہیں ہم

ہمیں کھجور کی شاخوں پہ جا کے گرنا ہے

کہ آسمان سے الٹا لٹک رہے ہیں ہم

تمہارا ہاتھ چھوا تھا ہمارے ہاتھ کے ساتھ

اسی مہک میں ابھی تک مہک رہے ہیں ہم

تمھارے خواب کی آب و ہوا ہے راس ہمیں

یہ دیکھ کیسے فضا میں لچک رہے ہیں ہم

الجھ رہی ہیں لکیریں کہیں لکیروں سے

گھنا ہے ہاتھ کا جنگل، بھٹک رہے ہیں ہم

شراب شیشے کی بوتل میں ہی دھری ہوئی ہے

نظر نظر سے ملائے چھلک رہے ہیں ہم

سلگ رہے ہیں کسی غم میں جسم و جاں قیصر

اندھیرا بڑھ رہا ہے اور چمک رہے ہیں ہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]