تمہارے درد سے اپنے ملال سے خائف

گزر رہی ہے عجب ماہ و سال سے خائف جھجھک رہا ہے دریدہ دہن ، تکلم سے وہ حال ہے کہ نظر ہے جمال سے خائف تمہارا حسن مہربان ہے ، مگر دل ہے تمہارے قرب سے لرزاں وصال سے خائف حضورِ وقت کھڑا ہے شکست خوردہ جنوں حسابِ سُود و زیاں کے سوال سے […]

تو سنگِ درِ یار سلامت ہے ، جبیں بھی؟

گویا کہ فسانے میں بڑے جھول رہے ہیں تم محوِ تکلم جو نہیں ہو تو یہ کیا ہے اشعار بھلا کس کی زباں بول رہے ہیں آواز کھنکتی ہے سماعت میں ابھی تک الفاظ ابھی کان میں رس گھول رہے ہیں تُم درجہ ِ احسان کی تکمیل ، مجسم ہم دستَ طلبگار ہیں ، کشکول […]

تیری آغوش کی جنت سے نکالے ہوئے ہم

در بدر آج بھی ہیں خواب سنبھالے ہوئے ہم جام ہو کر بھی کہاں تیرے لبوں تک پہنچے جشن کی رات ہواؤں میں اچھالے ہوئے ہم آ گرے لوٹ کے دامن میں ہی کھوٹے سکے تیرے در سے بھی ہمارے ہی حوالے ہوئے ہم رُل گئے خاک میں دوپہر کے ہوتے ہوتے صبح کی گود […]

کوئی صدا ، سوال ، طلب ، کچھ نہیں رہا

اب ماسوائے جان ، بہ لب ، کچھ نہیں رہا اب ہمکلام ہو ، تو ذرا احتیاط سے لہجے میں اب لحاظ ، ادب ، کچھ نہیں رہا جوڑا تھا جو وجود بدقت ، بکھر چکا تم آج لوٹتے ہو کہ جب کچھ نہیں رہا اُٹھتے ہیں اُس کے ہاتھ فقط الوداع کو اب گویا […]

انور پیرزادہ کا یومِ پیدائش

آج سندھ کے معروف ترقی پسند شاعر، محقق اور ادیب انور پیرزادہ کا یومِ پیدائش ہے ۔ (پیدائش: 25 جنوری 1945ء – وفات: 7 جنوری 2007ء) —— انور پیرزادہ سندھی اور انگریزی زبان کے ایک پرجوش اور تخلیقی مصنف، شاعر، صحافی اور ریسرچ اسکالر تھے۔ زندگی بھر انہوں نے اپنی ذاتی زندگی اور خوشحالی پر […]

ماحول خوابناک ، نہ ہی وقت شب کا تھا

اس وقت تیز دھوپ تھی یہ خواب جب کا تھا کوئی نہ تھا کمال ، تمہارے فقیر میں بس خانماں خراب کا لہجہ غضب کا تھا دہلیز پر نثار کیا ، تاج دار سر وہ حسن مستحق ہی نیاز و ادب کا تھا جس کو سخن کے سحر نے خاموش کر دیا یہ جادوئی کلام […]

عمر بس اعداد کی گنتی سے بڑھ کر کچھ نہیں

زندگی ، کارِ عبث، جس کی نہایت موت ہے لوٹ کر جانے کا کس کمبخت کو اب حوصلہ راہ سے بھٹکے ہوؤں کو اب ہدایت موت ہے یہ بکھیڑا ، جو بنامِ زندگی پالا گیا اس مشقت کی غرض کہیے کہ غایت موت ہے وہ جو اپنی ذات کے زندان میں بے چین ہیں ان […]

زیادہ کٹھن ہے ترک ِ نظارہ کے کرب سے

زیادہ کٹھن ہے ترکِ نظارہ کے کرب سے اُس محوِ دید کو پسِ منظر سے دیکھنا فی الحال میں زمین کو اُوپر سے دیکھ لوں پھر تو ہے تا ابد اسے اندر سے دیکھنا میں بھی افق پہ دید جماؤں گا دن ڈھلے تم بھی زمیں کی سمت ، سمندر سے دیکھنا وہ بے دِلی […]

وہ زخم جو معمول سمجھتے تھے ، بھرے کیا؟

اب عشق بھلا اور کرامات کرے کیا؟ یہ ضِد مری ہم عمر رہی ہے کہ میں دیکھوں منظر ہے بھلا حدِ بصارت سے پرے کیا؟ کیا سوچ کے سینچے ہے یہ صدمات لہو سے ہو جائیں گے اس طور ترے پات ہرے کیا؟ اک تارِ تنفس ہے کہ لے دے کے بچا ہے دِل یہ […]

وہ مہربان جھیل فقط بھاپ رہ گئی

پیاسے لبوں کی آنچ بہت ہی شدید تھی پہنچا ہوں اپنی آخری سانسوں کی حد تلک حیرت سرائے دہر کی وسعت مزید تھی فرشِ نظر پہ رقص کناں تھی وہ اپسراء دستِ رساء میں باغِ اِرم کی کلید تھی اُبھری سکوتِ مرگ میں پازیب کی چھنک آواز تھی تری کہ بقاء کی نوید تھی تیرے […]