عمیر نجمی کا یوم پیدائش

آج جدید عہد کے نامور غزل گو شاعر عمیر نجمی کا یوم پیدائش ہے ۔

عمیر نجمی(پیدائش: 2 ستمبر 1986ء )
——
عمیر نجمی کے نام سے شہرت پانے والے محمد عمیر 2 ستمبر 1986 کو پنجاب کے خوب صورت شہر رحیم یار خان میں پیدا ہُوئے آپ کی تعلیم بی ایس سی آرکیٹیکچرل انجینئرنگ یو آئی ٹی لاہور سے کی ، ایف ایس سی ایف سی لاہور کالج سے، 2014 سے باقاعدہ اپنے شعری سفر کا آغاز کیا آپ کے پسندیدہ شعرا میں میر تقی میر، میرزا غالب، علامہ اقبال، یگانہ چنگیزی، عرفان صدیقی، شکیب جلالی، جمال احسانی اُور جون ایلیا شامل ہیں آپ کو اپنے ہم عصر شعرا میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ آپ کی شاعری میں تازگی اور پختگی ہے آپ کی شاعری ایک وقت میں مرئی و غیر مرئی طاقتوں کو ساتھ لے کرآتی ہے
——
شاعرِ امروز عمیر نجمی از کبیر اطہر
——
میرے لیے کسی پر نثر میں کچھ لکھنا اُس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا کسی نثر نگار کے لیے کوئی نظم یا غزل کہنا مگر میں ادارہ بیاض کے منتظمین کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مضمون کو پانچ منٹ میں ختم کرنے کی پابندی عائد کر کے میری یہ مشکل آسان کر دی ہے
اگرچہ عمیر نجمی کے پاس اچھے اشعار کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پانچ منٹ تو کیا میں ان کے سہارے ایک ڈیڑھ گھنٹہ آرام سے گزار سکتا ہوں
سو مضمون کا آغازعمیر کے اُس شعر سے کرتے ہیں جو میرے حافظے میں اُس وقت بھی موجود تھا جب میں اِس نوجوان سے ملا بھی نہیں تھا
——
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : حسن نجمی کا یومِ وفات
——
میرے نزدیک شاعری پورا سچ ہے نہ پورا جھوٹ جس نے اس راز کو پا لیا اُسے خوب صورت اور قابلِ توجہ شاعری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا عمر کے جس حصے میں عمیر نجمی پر یہ بھید کھلا ہے وہ میرے لیے باعثِ استعجاب بھی ہے اور باعثِ مسرت بھی باعثِ حیرت اِس لیے کہ جہاں اِس عمر کے نوجوان راستے کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے ہوتے ہیں عمیر نجمی نے نہ صرف وہ راستہ پالیا ہے بلکہ اُس پر سبک خرام بھی ہے اور اُس کی یہی سبک خرامی میرے لیے باعثِ مسرت ہے
سوشل میڈیا کی ہڑبونگ نے جہاں بہت سے نئے لکھنے والوں کو نقصان پہنچایا ہے وہاں کچھ لوگوں کو فائدہ بھی دیا ہے اور میری نظر میں عمیر نجمی اُن فائدہ حاصل کرنے والوں میں سے ایک ہے جس نے اپنے تخلیقی قوت کے بل بوتے پر دنوں میں وہ مقام حاصل کیا ہے جو گئے وقتوں میں لوگوں کو سالوں میں بھی مشکل سے میسر آتا تھا آج کل کے نامور شاعروں میں اِیسے شاعر بھی موجود ہیں جنہیں اپنی شاعری کا سکہ جمانے کے لیے اپنی شاعری کا کشکول اٹھا کر شہر شہر گھومنا پڑا جو یقیناً بڑے دل گردے کا کام ہے
اور اس کشٹ سے انہوں نے یقینأ فائدہ بھی حاصل کیا اور وہ بھی دہرا ، مگر فیس بک نے عمیر نجمی کو سب کچھ گھر بیٹھے بٹھائے دے دیا ہے اور وہ بھی کسی قسم کی دو نمبری کے بغیر
یہی وجہ ہے کہ سفارشوں اور سازشوں سے ترقی کی منازل طے کر کے شاعری کے گریڈ سترہ تک پہنچنے والے درجہ چہارم کے اُن شاعروں کو جن کا رزق شاعری سے وابستہ ہے اِس نوجوان کا سیدھے گریڈ سترہ میں داخلہ بہت کھٹک رہا ہے
حالانکہ بقول اختر عثمان
——
ابھی تو پر بھی نہیں تولتا اڑان کو میں
بلاجواز کھٹکتا ہوں آسمان کو میں
——
ایک دور تھا جب شاعر کسی مستند جریدے میں چھپنا اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا تھا اور رفتہ رفتہ پہچان کے مراحل سے گزر کر اپنا اعتبار قائم کرتا تھا اور یہ عمل یقیناً شاعر کی تربیت کا باعث بھی ہوتا تھا کہ تمام مستند جرائد سال میں دو یا تین بار چھپتے تھے اور یہ عرصہ شاعر کو اپنی نئی تخلیقات کو تخلیقی خوش فہمی سے نکل کر دوبارہ دیکھنے کا موقع فراہم کرتا تھا
اگرچہ جرائد اب بھی موجود ہیں مگر سوشل میڈیا کی ناقص پزیرائی نے تربیت کے عمل کو بہت نقصان پہنچایا ہے خصوصاً نئے لکھنے والوں کو اِدھر چار اُلٹے سیدھے مصرعے ہوئے اُدھر فیس بک پر لٹکا دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے دو سو کمنٹس اور چار سو لائکس کے جھوٹ نے نوجوان کا دماغ خراب کر دیا
فیس بک کے اِس طرح کے منظر نامے میں جب عمیر نجمی کی غزل آپ کا دامن پکڑ لے تو رک کر پڑھنا تو بنتا ہے اور جب پڑھنے کے بعد اُس کی وال سے نکلنے کو جی نہ چاہے تو آپ ایسے شاعر کی ادب سے سنجیدہ وابستگی پر کیسے انگلی اٹھا سکتے ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : محمد حسن نجمی کا یومِ پیدائش
——
عمیر نجمی کی جس پہلی غزل نے مجھے اُس کا گرویدہ بنایا وہ میں نے فیس بک پر پڑھی تھی اُس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
——
ہر اِک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوۃ ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہورِ ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
——
سوشل میڈیا اب ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا اور بقول سعود عثمانی
——
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
بظاہر یہ مصرع مبالغے پر مبنی لگتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ عمر کی طرح زندگی اور اس سے جڑے لوازمات کا سفر آگے کی طرف ہوتا ہے پیچھے کی طرف نہیں ۔
اس نوجوان کی شاعرانہ فضا منفرد اور جداگانہ ہے محبت جو اِس عمر کے ہر نوجوان کا مسئلہ ہوتی ہے اِس کا بھی ہے مگر اظہار کا جو رنگ ڈھنگ اِس نوجوان نے اپنایا ہے مجھے اِس کے ہم عمر نوجوانوں میں ارد گرد کہیں نظر نہیں آتا اور تو اور اِس نے اپنے سخن کا جو لب و لہجہ مرتب کیا ہے فیس بک پر بہت سے نوجوان مجھے اُس کے حصار میں نظر آتے ہیں
میرا یہ ماننا ہے کہ جب تک آپ اپنی ذات کو اپنی شاعری کا حصہ نہیں بناتے آپ انہیں گھسے پٹے مضامین کی جگالی توکر سکتے ہیں نئی اور تازہ کار شاعری نہیں کر سکتے
یہ نوجوان مجھے اپنے اِس شعر کی عملی تفسیر نظر آتا ہے
——
ہاتھ اوروں کے خرابوں میں نہ ڈالا کیجے
اپنے ملبے میں دبے شعر نکالا کیجے
——
اس نے بہت سے سینیرز اور جونیرز کی طرح دوسروں کے شعروں کو الٹ پھیر کے شعر مرتب کرنے کی بجائے اپنی ذات کی زنبیل سے اپنے اشعار نکالے ہیں
چند شعر دیکھیے
——
چاہتا ہوں کہ نظر نور سے مانوس نہ ہو
روشنی ہو مگر اتنی ہو کہ محسوس نہ ہو
اب یہ زردی بھی بھگتنا تو پڑے گی کچھ دن
میں نہ کہتا تھا ہرے رنگ میں ملبوس نہ ہو
——
تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ
میں چھوٹے لوگوں کے گھر کا بڑا ہوں بات سمجھ
دل ودماغ ضروری ہیں زندگی کے لیے
یہ ہاتھ پاؤں اضافی سہولیات سمجھ
——
یہ بھی پڑھیں : خادم رزمی کا یوم وفات
——
اس خرابے میں کچھ آگے وہ جگہ آتی ہے
کہ جہاں خواب بھی ٹوٹے تو صدا آتی ہے
میں نے زندان میں سیکھا تھا اسیروں سے اک اسم
جس کو دیوار پہ پھونکیں تو ہوا آتی ہے
——
کتنی جلدی دیا گھر والوں کو پھل اور سایہ
مجھ سے تو پیڑ کی رفتار زیادہ نکلی
کوئی روزن نہ جھروکا نہ کوئی دروازہ
میری تعمیر میں دیوار زیادہ نکلی
——
اک دن زباں سکوت کی پوری بناوں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناوں گا
تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناوں گا
——
ضرر رساں ہوں بہت آشنا ہوں میں خود سے
جَھی تو فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوں میں خود سے
جھگڑتے وقت زرا بھی لحاظ رکھتا نہیں
اگرچہ عمر میں کافی بڑا ہوں میں خود سے
——
اس نوجوان کا کلام جدید تر ہونے کے ساتھ ساتھ روایت سے بھی مکمل طور پر جڑا ہوا ہے اس نوجوان نے انفراد کے نام پر نہ ہی انگریزی لفظیات کا سہارا لیا ہے اور نہ اپنے کلام کو سائنس فکشن بنانے کی کوشش کی ہے اس نے بڑے محتاط انداز میں دوسری زبانوں کے انہیں الفاظ کو اپنی غزل میں جگہ دی ہے جنہیں غزل نے خوش دلی سے قبول کیا ہے ورنہ زیادہ تر اس نوجوان نے نئی تلازمہ کاری سے مضامینِ تازہ کی بنیاد رکھی ہے اور وہ بھی ابلاغ سے بھر پور
کسی بھی لکھنے والے کے لیے لفظوں کا وہی زخیرہ ہے جو صدیوں سے برتا جا رہا ہے اور برتا جاتا رہے گا لحاظہ کوئی بھی لکھنے والا اس لغت کو تو نہیں بدل سکتا نئی تلازمہ کاری سے نئی شعری لغت ضرور ترتیب دے سکتا ہے اس نوجوان نے نہ صرف نئی زمینوں کا انتخاب کیا ہے بلکہ انہیں نئے قرینوں سے آباد بھی کیا ہے
اس نوجوان کی غزلوں کے اکثر اشعار صرف سنائی ہی نہیں دیتے بالکہ آپ اگر زرا سا غور کریں تو وہ آپ کو دکھائی بھی دیں گے
شاید ایسی شاعری کے لیے مجھ سے یہ شعر سر زد ہوا تھا
——
سنائی دینے سے آگے نکل گئی ہے غزل
جو سنتے وقت دکھائی بھی دے جدید سمجھ
——
یہ اشعار دیکھیں
——
تین کونوں سے نکلتے ہیں گھٹن خوف سکوت
میں سرکتا ہوا چوتھے میں دُبک جاتا ہوں
——
صحن میں پھرتی ہے برسوں کی سدھائی ہوئی یاد
جب بھی پچکار کے کہتا ہوں کہ آ ، آتی ہے
——
وہ ہجر تھا جس نے نم کیا اور بل نکالے
میں جتنا سیدھا ہوں اس کا بالکل الٹ رہا ہوں
——
عمیر کی شاعری ایک عجب قسم کی تمثال گری ہے جو پڑھنے والے کو بیک وقت صوتی بصری اور جمالیاتی سطحوں پر متاثر کرتی ہے
جس ایوارڈ کا آج یہ حق دار ٹھہرا ہے یہ واقعی اس کو ملنا چاہیے تھا نئی نکور زمینوں میں نئے طنتنے کے ساتھ کہے گئے شعروں کو دیکھ کر میں نے اِسے رسائل میں چھپنے کا مشورہ دیا تھا اور مجھے خوشی ہے کہ میرے اس مشورے پر عمل کر کے اس نے اپنی غزلوں اور ان کی زمینوں کو پیٹنٹ کروایا ادارہ بیاض بھی اس جوہر شناسی اور ادب نوازی پر تحسین کا مستحق ہے
——
یہ بھی پڑھیں : قیوم نظر کا یومِ پیدائش
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
——
میں ان کی وجہ سے ہوں درج ذیل تین کے ساتھ
خدا کے ساتھ، صحیفے کے ساتھ، دین کے ساتھ
یہی بہت ہے، زیارت ہو ان کی آنکھوں کی
مجھے بٹھاؤ مدینے کے زائرین کے ساتھ
امانتوں کے تحفظ کی رسم کے ہیں امیں
ہمارا ربطِ مسلسل ہے اک امین کے ساتھ
زمین زاد اگر کوئی اور ہے تو بتا
جو بے حجاب رہا عرش کے مکین کے ساتھ
وہ بادشاہ، غلاموں میں ایسے رہتا تھا
افق پہ جیسے جڑا ہے فلک، زمین کے ساتھ
یہی نہیں کہ اتارا تھا صرف حسنِ تمام
خدا نے عشق اتارا تھا اس حسِین کے ساتھ
سوال: کتنے برس تک زمیں تھی رشکِ فلک؟
جواب: صرف تریسٹھ برس، یقین کے ساتھ!
——
اُس کی طرف بس اس لئے تکتا نہیں تھا میں
جب دیکھتا تو آنکھ جھپکتا نہیں تھا میں
ایسی دبیز تہہ تھی بدن پر ملال کی
جلنے کے باوجود چمکتا نہیں تھا میں
——
نقاب اڑا تو مجھے سرخ لب دکھائی دیئے
وہ دو دیے، جو ہوا کے سبب دکھائی دیئے
میں جزوی اندھا تھا، دو چار رنگ دکھتے تھے
مگر جب اُس نے کہا؛ "دیکھ!”، سب دکھائی دیئے!
——
خوب رونق تھی اِن آنکھوں میں، پھر اک خواب آیا
ایسے، جیسے کسی بستی میں وبا آتی ہے
ٹھیک ہے، ساتھ رہو میرے مگر ایک سوال:
تم کو وحشت سے حفاظت کی دعا آتی ہے ؟
——
ہمیں اکٹھے کبھی دیکھنا کہیں بیٹھے
نہیں ہے، پھر بھی لگے گا بڑا تعلق ہے
——
کوئی ستارہ بدن، نام پوچھتا ہے تو میں
عمیر بول کے نجمی کا "نون” کھینچتا ہوں
——
اب تو محفل میں بھی آتا ہے اکیلا ہونا
پہلے خلوت میں بھی تنہائی نہیں ملتی تھی
——
میں چاہتا تھا مجھ سے بچھڑ کر وہ خوش رہے
لیکن وہ خوش ہوا تو بڑا دکھ ہوا مجھے
——
سب انتظار میں تھے کب کوئی زبان کھلے
پھر اسکے ہونٹ کھلے اور سب کے کان کھلے
——
جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا
یہ کل ملا کر بھی ہجر کی رات میرے گریہ سے کم بنے گا
میں دشت ہوں یہ مغالطہ ہے نہ شاعرانہ مبالغہ ہے
مرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ نقش قدم بنے گا
ہمارا لاشہ بہاؤ ورنہ لحد مقدس مزار ہوگی
یہ سرخ کرتا جلاؤ ورنہ بغاوتوں کا علم بنے گا
تو کیوں نہ ہم پانچ سات دن تک مزید سوچیں بنانے سے قبل
مری چھٹی حس بتا رہی ہے یہ رشتہ ٹوٹے گا غم بنے گا
مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پن قدرتی ہے سو اعتراض کیسا
شدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا یہ طے ہے خم بنے گا
سنا ہوا ہے جہاں میں بے کار کچھ نہیں ہے سو جی رہے ہیں
بنا ہوا ہے یقیں کہ اس رائیگانی سے کچھ اہم بنے گا
کہ شاہزادے کی عادتیں دیکھ کر سبھی اس پر متفق ہیں
یہ جوں ہی حاکم بنا محل کا وسیع رقبہ حرم بنے گا
میں ایک ترتیب سے لگاتا رہا ہوں اب تک سکوت اپنا
صدا کے وقفے نکال اس کو شروع سے سن ردھم بنے گا
سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ‌ باز
پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا رکو خدا کی قسم بنے گا
——
ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ
نصاب عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبان سکوت بسم اللہ
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہور ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
کسی کو راستہ دے دیں کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ
——
مِلنے کا جب کہا تو مِلا، دُکھ ہوا مجھے
میں نے بھی مِل کے منہ پہ کہا: "دُکھ ہوا مجھے! ”
میں چاہتا تھا مجھ سے بچھڑ کر وہ خوش رہے
لیکن وہ خوش ہوا تو بڑا دُکھ ہوا مجھے
سسّی کی داستان سنی تھی گزشتہ شب
میرے بلوچ دوست! ادا! دُکھ ہوا مجھے
اِک دُکھ تھا جس کا مجھ کو نہیں ہو رہا تھا دُکھ
لیکن جب اُس کو دُکھ نہ ہوا، دُکھ ہوا مجھے
اُس کے دیئے دُکھوں پہ الگ غمزدہ تھا میں
اور انتقام لے کے جُدا دُکھ ہوا مجھے
لگتا ہے میرے ردّعمل سے نہیں لگا
لیکن یقین کر! بخدا! دُکھ ہوا مجھے
تب یہ پتہ چلا کہ مجھے اُس سے عشق ہے
جب اُس کے دُکھ پہ اُس سے سِوا دُکھ ہوا مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الیاس بابر اعوان کا یومِ پیدائش

آج راولپنڈی ، پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر اور افسانہ نگار الیاس بابر اعوان کا یومِ پیدائش ہے ۔ (پیدائش: 28 مئی 1976ء ) —— الیاس بابر اعوان کی پیدائش 28 مئی 1976ء، راولپنڈی، صوبہ پنجاب، پاکستان میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد افضل اعوان ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی […]

منظر لکھنوی کا یومِ وفات

آج معروف کلاسیکل شاعر جعفر حسین منظر لکھنوی کا یومِ وفات ہے (پیدائش: 1866ء – وفات: 28 مئی 1965ء) —— نظر لکھنوی۔ نوبت رائے نام نظرؔ تخلص ۔وطن لکھنؤ کائستھ خاندان سے تعلق رکھتے تھے 1866ء میں پیدا ہوئے ۔ ۔شاعری کا شوق شروع ہی سے تھا ۔آغاز مظہر کے شاگرد ہیں ۔1897 میں لکھنؤ […]