اے کہ تو ہاشمی و مُطلبی ہے ساقی

تجھ پہ نازاں تری عالی نسبی ہے ساقی

ہے وہ محرومِ خرد اور غبی ہے ساقی

جو کہے بعد ترے کوئی نبی ہے ساقی

مختتم جس پہ رسالت وہ رسولِ اکرم

منتہی جس پہ نبوت وہ نبی ہے ساقی

نور سے تیرے وہی شعلہ ہوا چشمک زن

جس میں کوئی رمقِ بو لہبی ہے ساقی

نام سنتے ہی ترے کہتے ہیں سب صلِّ علیٰ

چپ رہے کوئی تو یہ بے ادبی ہے ساقی

شاد کامِ مئے توحید ہوئے جو میکش

ان کو کہتے نہ سنا تشنہ لبی ہے ساقی

نقشِ دل ہوتی ہیں آیات ترے مصحف کی

کیا ہی اعجازِ زبانِ عربی ہے ساقی

شافعِ روزِ جزا رحمتِ کونین خوشا

روح پرور یہ تری خوش لقبی ہے ساقی

حشر میں تشنہ لبی ان کا مقدر کیوں ہو

مرحبا جن کا رسولِ عربی ہے ساقی

جلوۂ صبح کے آثار ہویدا پھر ہوں

چار سو طنطنۂ تیرہ شبی ہے ساقی

کھو گئی اپنی نظرؔ مال و زرِ دنیا میں

عقل حیراں ہے یہ کیا بوالعجبی ہے ساقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]