مری جاں میں سمایا عشقِ محبوبِ خدا ہے
مرا محبوب ہے وہ جو حبیبِ کبریا ہے ظفرؔ وہ ہی مسیحائے ہمہ مُردہ دِلاں ہے مریضِ جاں بلب کو بھی وہی دیتا شفا ہے
معلیٰ
مرا محبوب ہے وہ جو حبیبِ کبریا ہے ظفرؔ وہ ہی مسیحائے ہمہ مُردہ دِلاں ہے مریضِ جاں بلب کو بھی وہی دیتا شفا ہے
کلیم اللہ سے محبوبِ خدا تک خدا سے ہم کلامی ہم نشینی شبِ معراج سے روزِ جزا تک
محبوب مرا کون بھلا اُنؐ کے سوا ہے ہے سایہ کناں کون بھلا ننگے سروں پر رحمت کی رِدا کون بھلا اُن کے سوا ہے
مؤدت موجزن خیر الوریٰؐ کی عطاء اللہ کی، عشق محمدؐ عنایت ہے خدا و مصطفیٰؐ کی
درِسرکارؐ پر آئے شفا ہو وہی تقدیرِ اِنساں امرِ ربیّ ظفرؔ جو بھی رضائے مصطفیٰؐ ہو
نبیؐ میرے امام الانبیاء ہیں سراپا روشنی نورِ مجسم وہی شمس الضحیٰ، بدرالدجیٰ ہیں
خدا کا فضل اُن پر مہرباں ساری خدائی ہے غلامِ مصطفیٰؐ ہوں میں، گرفتارِ محبت ہوں ظفرؔ اِس خوبصورت قید پر قرباں رہائی ہے
کوئی محبوب، محبوبِ خُدا سا بُلایا عرش پر جی بھر کے دیکھا رُخِ محبوب، چہرہ مصطفیٰؐ کا
جہاں سجدہ کناں کون و مکاں ہے جبیں اپنی ظفرؔ اس در پہ رکھ دو حبیبِ کبریاؐ کا آستاں ہے
سخی دربار کی عظمت تو دیکھو خُدا داتا ہے قاسم ہیں محمدؐ انوکھے پیار کی عظمت تو دیکھو