خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے
وہ مخلوقات کا روزی رساں ہے خدا کی یاد ہے دل میں ظفرؔ کے خدا کے ذکر میں ہی اُس کی جاں ہے
معلیٰ
وہ مخلوقات کا روزی رساں ہے خدا کی یاد ہے دل میں ظفرؔ کے خدا کے ذکر میں ہی اُس کی جاں ہے
پڑے ہیں ٹھوکروں میں جو، اُنہیں بڑھ کر اُٹھا لو ہیں جو روٹھے ہوئے احباب، تم اُن کو منالو نہیں کوئی بھی جن کا، اُن کو تم اپنا بنا لو
ذرا سی آبجو میں، تو ہے بحر بیکراں مولا میں اُڑتا زرد پتا، تو مہکتا گلستاں مولا میں اِک بندۂ عاصی، تو کرم کا سائباں مولا
خدا تخلیق کارِ ہر زماں ہے وہ مسجُودِ ملائک، اِنس و جاں ہے ظفرؔ وہ قبلہ گاہِ عاشقاں ہے
مرا دل ابرِ رحمت کا ہے ترسا مرے دل میں بھی ہوں تشریف فرما ہوا ہے ذکر کرتے ایک عرصہ
فضاؤں میں، خلاؤں میں، زمین و آسماں میں دلاسہ دے وہی مغموم دل، قلبِ تپاں کو گزر اُس کا ظفرؔ اکثر قلوبِ عاشقاں میں
سفید احرام بھی واضح نشاں ہے ایک مرکز کا ہیں انساں سب برابرسب مسلماں بھائی بھائی ہیں یہی پیغام دائم جاوداں ہے ایک مرکز کا
خدا سارے جہانوں کا خدا ہے خدا معبود مخلوقات کا ہے خدا سب آستانوں کا خدا ہے
خدائے اِنس و جاں سر پر ہے میرے نہیں خائف ظفرؔ حاسد کے شر سے خدائے مہرباں سر پر ہے میرے
کرے مظلوم کی مشکل کشائی ظفرؔ ہو مہرباں اُس پر خدا بھی ہو اُس پہ مہرباں ساری خدائ