اس چہرۂ حسیں کا خیالِ حسیں رہے
دل میں کھلی سدا یہ کتابِ مبیں رہے گلشن پسند ہم تھے پہ صحرا نشیں رہے اندوہگیں سے ہائے ہم اندوہگیں رہے سر مستی و سرور کا اس کے ٹھکانہ کیا جس دل کی سمت وہ نگہِ سرمگیں رہے خاکی تھے ہم تو خاک سے نسبت نہیں گئی روئے زمیں سے اٹّھے تو زیرِ زمیں […]