اس چہرۂ حسیں کا خیالِ حسیں رہے

دل میں کھلی سدا یہ کتابِ مبیں رہے گلشن پسند ہم تھے پہ صحرا نشیں رہے اندوہگیں سے ہائے ہم اندوہگیں رہے سر مستی و سرور کا اس کے ٹھکانہ کیا جس دل کی سمت وہ نگہِ سرمگیں رہے خاکی تھے ہم تو خاک سے نسبت نہیں گئی روئے زمیں سے اٹّھے تو زیرِ زمیں […]

بہار آئی ہے گلشن میں، اسیرِ باغباں ہم ہیں

زباں رکھتے ہوئے بھی وائے قسمت، بے زباں ہم ہیں ابھی سے کیا کہیں، ناکام ہیں یا کامراں ہم ہیں کہ یہ دورِ عبوری ہے، بقیدِ امتحاں ہم ہیں بھٹکتے پھر رہے ہیں ہم نشاں منزل کا گم کر کے حیا آتی ہے اب کہتے، حرم کے پاسباں ہم ہیں سنے دنیا تو حیرت ہو، […]

جانِ عالم کی آرزو تو کریں

دل کی دنیا کو مشکبو تو کریں راز کی ان سے گفتگو تو کریں ترک وہ فرقِ ما و تُو تو کریں کیفِ یادِ حبیب بڑھ جائے چشمِ تر سے ذرا وضو تو کریں پھر تری جستجو میں نکلیں گے پہلے ہم اپنی جستجو تو کریں مان لیں گے تمہیں مسیحِ زماں چارۂ قلبِ فتنہ […]

جلوہ فرمائے دو عالم ہے مگر رو پوش ہے

حسنِ معنی شوخیوں میں بھی حیا آغوش ہے پینے والے ہی نہ ہوں محفل میں تو امرِ دگر ورنہ ساقی تو ازل سے میکدہ بردوش ہے ہوش والوں کا تمسخر کیوں ہے اے مستِ جنوں نقطۂ آغاز تیرا بھی رہینِ ہوش ہے بعدہٗ کیا کیفیت گزری نہیں معلوم کچھ صاعقے چمکے تھے نزدِ آشیاں یہ […]

خرد ہُشیار ہو جائے انا بیدار ہو جائے

کچھ ایسے حادثہ سے دل مرا دوچار ہو جائے قیامت جھیلنے کو پہلے دل تیار ہو جائے کرے پھر آرزو اس حسن کا دیدار ہو جائے ہجومِ غم کی یورش بے اثر بے کار ہو جائے نہ خود احساسِ دل گر در پئے آزار ہو جائے سیہ خانہ یہ دل قندیلِ صد انوار ہو جائے […]

خستہ دل، نالہ بلب، شعلہ بجاں ٹھہرے ہیں

پھر بھی کس شوق سے سب اہلِ جہاں ٹھہرے ہیں ناتواں دل ہے مگر عزم جواں ٹھہرے ہیں ان سے پوچھے کوئی آ کر یہ کہاں ٹھہرے ہیں نیند آ جائے ہمیں بھی نہ عیاذاً باللہ سب یہ کہتے ہیں کہ وہ سحر بیاں ٹھہرے ہیں ہم نے واعظ کو نہ پایا کبھی سرگرمِ عمل […]

خوشیاں کہاں نصیب ہیں غم دل میں بس رہے

جیتے ہوئے بھی جینے کو ہم تو ترس رہے گلشن میں ہم رہے کہ میانِ قفس رہے آزردہ قلب و شعلہ بجاں ہر نفس رہے جب زندگی پہ موت کا ہونے لگے گماں ایسے میں زندگی کی بھلا کیا ہوس رہے دریا کے پار اتر گئے تھا جن میں حوصلہ مُنہ دیکھتے رہے وہ جنھیں […]

درمیاں پردۂ حائل کو اٹھا سکتے ہیں

ایک دنیا کو وہ دیوانہ بنا سکتے ہیں نالۂ درد کہیں کام اگر آ جائے چشمِ رحمت وہ مری سمت اٹھا سکتے ہیں ایسے کم ہیں کہ جو میدانِ عمل میں اتریں بیٹھ کر بات تو سب لوگ بنا سکتے ہیں دعوتِ عام ہے میخانۂ توحید ہے یہ کلمہ ساقی کا پڑھیں جو بھی وہ […]

دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں

منکر کی مجالس میں لیکن خود شیخِ مکرم ہوتے ہیں جنت ہے تمہارا مل جانا، دوزخ ہے بچھڑ جانا تم سے کچھ اس کے سوا معلوم نہیں کیا خلد و جہنم ہوتے ہیں وہ آخرِ شب کا سناٹا، وہ کیفِ تقرب کا عالم مائل بہ کرم وہ ہوتا ہے، مصروفِ دعا ہم ہوتے ہیں دیکھیں […]

دکھا دکھا کے وہ ہر نیک کام کرتے ہیں

جنابِ شیخ بھی کارِ حرام کرتے ہیں خدا پناہ وہ اب ایسے کام کرتے ہیں کہ فتنے دور سے ان کو سلام کرتے ہیں یہ چاندنی یہ ستارے یہ عالمِ ہجراں ہماری نیند یہ مل کر حرام کرتے ہیں طلوعِ صبح کے آثار دور دور نہیں دراز وہ تو ابھی زلفِ شام کرتے ہیں بس […]