چیخا پہاڑ ، دشت پکارا ” نہیں نہیں "

چیخا پہاڑ ، دشت پکارا ” نہیں نہیں ” بولا حدِ زمیں کا کنارا ” نہیں نہیں ” رب نے کسی کو کہہ کے اُتارا ” نہیں نہیں ” قومِ حجاز بولی دوبارہ ” نہیں نہیں ” کہنے لگے وہ دِل کی گرہ کھولتے ہوئے دیکھا ہمیشہ آپ کو سچ بولتے ہوئے

اس طُرفہ جُود و لطف و عنایت پہ میں نثار

حاجت اِدھر ہے ایک تو بخشش اُدھر ہزار تارِ نَفَس اِدھر ، اُدھر الطاف کی قطار بے حد مری خطائیں ، کرم اس کے بے شمار اِتراؤں کس لئے نہ میں اپنے نصیب پر وہ شاہ مہربان ہے مجھ سے غریب پر

خُرد و کلاں کا اعلیٰ وادنیٰ کا سب کا ربّ

واحد ، اَحَد ، وحید اسی کے سبھی لقب وہ آرزو کی جان ہے وہ لذّتِ طَلَب وِرد اس کا زیبِ قلب ہے ذکر اس کا فخرِ لَب دھڑکن کی یہ صدا تو خِرد کی دلیل ہے سینے میں ورنہ ذکرِ خدائے جمیل ہے

سوچوں کا، آرزوؤں کا، عادات کا نبی

رنگوں کا، خوشبوؤں کا، خیالات کا نبی موسم کا، روشنی کا، نباتات کا نبی شیشوں کا، پتھروں کا، جمادات کا نبی رہرو، شدید دھوپ، سفر، اس کے اُمّتی سایہ، قیام، کُنجِ شجر اس کے اُمّتی

ساون سجیلے موسموں میں کوئلوں کی کُوک

بھیگی سُلگتی شب میں فسردہ دلوں کی ہُوک پت جھڑ کی زد میں آئی ہوئیں کونپلیں مُلوک صیّاد دیدہ صید میں وہ شانتی کی بھُوک ایمن کا ہو کلیم کہ یوسف ہو چاہ کا ہر جذبہ مدح خواں ہے رسالت پناہ کا