مٹا دل سے غمِ زادِ سفر آہستہ آہستہ
تصوّر میں چلا طیبہ نگر آہستہ آہستہ زباں کو تابِ گویائی نہیں رہتی مدینے میں صدا دیتی ہے لیکن چشمِ تر آہستہ آہستہ اُتاری روح کی بستی میں جلوؤں کی دھنک اس نے شکستِ شب پہ ہو جیسے سحر آہستہ آہستہ جگائے علم کے سورج سکھائی لفظ کی حرمت کیے وا آگہی کے سارے در […]