رُخصتی

راحتِ جاں ناز پرور سب مسرّت تم سے ہے افتخار و شادمانی کی یہ دولت تم سے ہے خانۂ آباد کی یہ شان و شوکت تم سے ہے رونقِ بزمِ عروسی کی ضمانت تم سے ہے محفلِ شادی کی رونق دائمی ہو شاد باد رنگِ عشرت سے مزیّن آرسی ہو شاد باد آنے والی زندگی […]

زندگی دشتِ انا ہے یہاں کس کا سایا

اپنے سائے کے علاوہ نہیں ملتا سایا دور جائیں جوشجرسے تو جھلس جانے کا ڈر چھاؤں میں بیٹھیں تو اپنا نہیں بنتا سایا بڑھ گئی میری تھکن اور بھی اے شہر امان آزما کر تری دیوار کا دیکھا سایا عکس شیشے کے گھروں میں نظر آتے ہیں ہزار دھوپ آ جائے تو ڈھونڈے نہیں ملتا […]

صبح کے آثار میں سے تھا

جب بجھ گیا تو ورثۂ بیکار میں سے تھا آساں ہوئی ہیں منزلیں، اچھا ہوا لٹا رختِ سفر کہ جان کے آزار میں سے تھا خنجر مرا تھا ہاتھ میں اُس کے، سپر مری نکلا مگر وہ لشکرِ اغیار میں سے تھا زنداں لگا مجھے تو یہ دورانِ زندگی سارا نظارہ روزنِ دیوار میں سے […]

سب کاروبار نقد و نظر چھوڑنا پڑا

بکِنے لگے قلم تو ہُنر چھوڑنا پڑا قربانی مانگتی تھی ہر اک شاخ بے ثمر بسنے نہ پائے تھے کہ شجر چھوڑنا پڑا کرنا تھا جو سفر ہمیں ہم نے نہیں کیا بچوں کو آج اس لئے گھر چھوڑنا پڑا آ تو گئے ہو، سوچ لو جاؤ گے پھر کہاں یہ شہر بد لحاظ اگر […]

زندہ حقیقتوں سے چھپایا گیا ہمیں

ماضی کی داستاں میں بسایا گیا ہمیں چھینا گیا لبوں سے تبسم بنامِ سوز قصے کہانیوں پہ رُلایا گیا ہمیں اپنے سوا ہر عکس ہی بگڑا ہوا لگا آئینہ اِس طرح سے دکھایا گیا ہمیں پہلے تو ایک درسِ اخوّت دیا گیا پھر حرفِ اختلاف پڑھایا گیا ہمیں کانوں میں زہرِ کفر انڈیلا گیا ہے […]

سمجھو کہ ہجرت کے طلسمات میں گم ہیں

ہم لوگ وفاؤں کے تضادات میں گم ہیں رستوں میں نہیں سات سمندر کی یہ دوری یہ سات سمندر تو مری ذات میں گم ہیں ہم لے کے کہاں جائیں محبت کا سوال اب دل والے بھی اپنے ہی مفادات میں گم ہیں کشکولِ انا کو بھی چٹختا کوئی دیکھے سب اہلِ کرم لذتِ خیرات […]

شب کی کتاب میں کبھی تازہ برگ گلاب تھا

خطِ زر فشاں سے لکھا ہوا مری زندگی کا نصاب تھا وہ مثالِ ابر تھا آسرا کڑے موسموں کے دیار میں وہ تمازتوں کے سوال پر مری تشنگی کا جواب تھا جو بغاوتوں کے جواز میں مری سرکشی کا سبب رہا وہ امین تھا مرے خواب کا، وہ مرا غرور شباب تھا مرے کسب زارِ […]

لب پہ شکوہ بھی نہیں، آنکھ میں آنسو بھی نہیں

مجھ سے دل کھول کے لگتا ہے مِلا تو بھی نہیں اُن کی آنکھوں کے ستارے تو بہت دور کی بات ہم وہاں ہیں کہ جہاں یاد کے جگنو بھی نہیں جب سے گردن میں نہیں ہے کوئی بانہوں کی کمان میرے سینے میں کوئی تیر ترازو بھی نہیں یا تو ماضی کی مہک ہے […]

میں روز اپنے لئے ضابطے بناتا ہوں

پھر اُن کو توڑتا ہوں اور نئے بناتا ہوں پہنچ بھی جاؤں کہیں میں تو گھر نہیں کرتا نئے سفر کے لئے راستے بناتا ہوں مقیمِ دل ہوں میں، امید نام ہے میرا میں خواب بُنتا ہوں اور واقعے بناتا ہوں میں ٹکڑے جوڑ کے ٹوٹے ہوئے چراغوں کے ہوا کے سامنے بیٹھا دیئے بناتا […]

میرا سفر ہے ضبطِ مسلسل کی قید میں

چھوٹی سی جیسے کشتی ہو بوتل کی قید میں اپنے بدن کی آگ میں جل کر مہک اٹھی خوشبو جو بیقرار تھی صندل کی قید میں اے فصل تشنہ کام نویدِ رہائی دے پانی کو دیکھ کب سے ہے بادل کی قید میں گہرائی اُس کے ضبطِ الم کی بھی دیکھئے ساگر رکھے ہوئے ہے […]