لوگوں نے ایک واقعہ گھر گھر بنا دیا

اُس کی ذرا سی بات کا دفتر بنا دیا پہرے قیامتوں کے لگا کر زبان پر دل کو ترے خیال نے محشر بنا دیا صادق تھے ہم بھی جذبۂ منزل میں اس قدر رستے کا ہر سراب سمندر بنا دیا لے لے کے نقشِ بندگی دہلیز سے تری ہم نے جبین عشق کا زیور بنا […]

پھر کسی آئنہ چہرے سے شناسائی ہے

عاشقی اپنے تماشے کی تمنائی ہے مہربانی بھی مجھے اب تو ستم لگتی ہے اک بغاوت سی رَگ و پے میں اُتر آئی ہے سنگِ برباد سے اٹھتا ہے عمارت کا خمیر خاکِ تخریب میں پوشیدہ توانائی ہے عصرِ حاضر کے مسائل ہوئے بالائے حدود اب نہ آفاقی رہا کچھ، نہ علاقائی ہے مسئلے دھرتی […]

تارہ تارہ بکھر رہی ہے رات

دھیرے دھیرے سے مر رہی ہے رات ہاتھ میں کاسۂ فراق لئے سر جھکائے گزر رہی ہے رات کتنی تنہا فضا ہے گلیوں کی سرد آہیں سی بھر رہی ہے رات میری آوارگی کے پہلو میں کو بکو در بدر رہی ہے رات اک دریچے سے راہ تکتی ہے سہمی سہمی ہے، ڈر رہی ہے […]

جانے کتنے راز چھپے ہیں ٹھہرے ٹھہرے پانی میں

کون اُتر کر دیکھے اب اس یاد کے گہرے پانی میں جل پریوں کی خاموشی تو منظر کا ایک دھوکا ہے فریادوں کا شور مچا ہے اندھے بہرے پانی میں کوئی سیپ اُگلتی ہے موتی اور نہ موجیں کوئی راز حرص و ہوا کے ایسے لگے ہیں چار سُو پہرے پانی میں جھیل کے نیلے […]

مٹی سے پیار کر تو نکھر آئے گی زمین

دامن میں بھر کے اپنے ثمر آئے گی زمین نیچے اتر خلاؤں سے لوگوں کے دکھ سمیٹ شمس و قمرسے بڑھ کے نظر آئے گی زمین کشتی کے آسرے کو ڈبو کر تو دیکھ تُو پانی کے درمیان اُبھر آئے گی زمین بٹ جائیں گی محبتیں لوگوں کیساتھ ساتھ روٹی کے مسئلے میں اگر آئے […]

وہ بھی بدل کے رنگ فضاؤں میں ڈھل گیا

مٹی کا آدمی تھا، ہواؤں میں ڈھل گیا لفظوں سے تھا بنا ہوا شاید وہ شخص بھی اک غم ملا تو کیسی صداؤں میں ڈھل گیا سینے میں جب جلا لیا شعلہ چراغ نے مٹی کا ٹھیکرا تھا، شعاعوں میں ڈھل گیا مجھ کو تو یاد اُس کے خدوخال بھی نہیں دیکھا مجھے تو حسن […]

آنکھوں میں اب یقین کی جنت نہیں رہی

لہجے میں اعتماد کی شدت نہیں رہی آشوبِ دہر ایسا کہ دنیا تو برطرف خود پر بھی اعتبار کی ہمت نہیں رہی ق کس کس گلی نہ لے گئی آشفتگی ہمیں کس کس نگر میں درد کی شہرت نہیں رہی ویران اب بھی رہتا ہے عالم خیال کا تنہائیوں میں پہلی سی وحشت نہیں رہی […]

جلا ہے دل تو گمان و یقیں بھی جلنے لگے

مکاں جلا تو جلا سب مکیں بھی جلنے لگے ہوائے شہرِ ضرورت کی بے نیازی سے گھروں کی آگ میں ہم رہ نشیں بھی جلنے لگے غرورِ عشق سلامت رکھے خدا میرا تری وفا سے مرے نکتہ چیں بھی جلنے لگے تمہاری بزم درخشاں رہے ہمارا کیا چراغِ راہ گزر ہیں کہیں بھی جلنے لگے […]