ایمان کا نشان ہیں سلمان فارسی

واللہ میری جان ہیں سلمان فارسی صدیق کا شعور و بیاں اور بہ لفظہٖ! فاروق کی زبان ہیں سلمان فارسی رگ رگ میں ہیں خدا و محمد بسے ہوئے روحانیت کی جان ہیں سلمان فارسی یاد آتی ہے حضور کی انساں نوازیاں کیسا حسیں جہان ہیں سلمان فارسی اک رات ہی میں جرم ’’مدائن‘​‘​ ہوئے […]

ایک روشنی زمین سے آسمان تک

حضور ہی ہیں چراغِ راہ ہدایت ایسےحضور ہی ہیں چراغِ راہ ہدایت ایسے کہ جو ازل سے ابد تلک زندگی کے تمام تر قافلوں کی ہر آن رہنمائی کو ضوفشاں ہیں حضور ہی ہیں وفا کا وہ ماہتاب جس کی شفیق کرنوں میں چہرہ جور و جفا ہرگز نکھر نہ پایا اِک آفتابِ نبوت ایسا […]

اے نویدِ مسیحا دُعائے خلیل

نفرتوں کے گھنے جنگلوں میں شہا عہد حاضر کا انسان محصور ہے مشعلِ علم و اخلاق سے دُور ہے کتنا مجبور ہے اے نویدِ مسیحا دُعائے خلیل روک دے نفرتوں کی جو یلغار کو پختگی ایسی دیں مرے کردار کو آپ کا لطف و رحمت تو مشہور ہے

باعث کون و مکاں زینتِ قرآں یہ نام

اسمِ محمد باعث کون و مکاں زینتِ قرآں یہ نام ابرِ رحمت ہے جو کونین پہ چھا جاتا ہے دردمندوں کے لیے درد کا درماں یہ نام لوحِ جاں پر بھی یہی نقش نظر آتا ہے اک یہی نام تو ہے وجہِ سکوں وجہِ قرار اک یہی نام کہ جلتے ہوئے موسم میں اماں ہے […]

ضمیر کی قید میں

بتوں کے آگے نہ سر جھکانا نہ اپنے دامن میں آگ بھرنا یہی وہ پہلا پیامِ حق تھا جسے بھلا کر ہم آج پھر سے کئی بتوں کے حضور سجدوں کے امتحاں سے گذر رہے ہیں اور اپنے دامن میں روز و شب آگ بھر رہے ہیں خدا کے آگے نہ جھکنے والے انا و […]

جب بھی ہم تذکرۂ شہرِ پیمبر لکھیں

اُس کو بالائے زمیں خلد کا منظر لکھیں گفتگو یاد کریں کھول کے قرآنِ حکیم پھر انہیں لفظ و معانی کا سمندر لکھیں تلخ گفتار کا ماحول بدلنے کے لیے تذکرہ آپ کے اخلاق کا ُکھل کر لکھیں آؤ آرام گہہِ شہ کی بنائیں تصویر ہاتھ کا تکیہ لکھیں خاک کا بستر لکھیں ہوگا الفاظ […]

خاک کو عظمت ملی سورج کا جوہر جاگ اُٹھا

آپ کیا آئے کہ ہستی کا مقدر جاگ اُٹھا تیرگی سے خوف کھا کر جب پکارا آپ کو! جسم و جاں میں روشنی کا اک سمندر جاگ اُٹھا جب ہوئی ان کی صداقت کو شہادت کی طلب ہاتھ میں بوجہل کے ہر ایک کنکر جاگ اُٹھا رو کے سویا ہی تھا میں یادِ پیمبر میں […]

ختم ہونے ہی کو ہے در بدری کا موسم

جلد دیکھوں گا میں شہر نبوی کا موسم فرش پر عرش کے حالات سنائے ہم کو اُن کے آنے سے گیا بے خبری کا موسم آپ نے آکے بتائے ہیں بصیرت کے رموز آپ سے سب کو ملا خوش نگہی کا موسم اُن کی نسبت سے دُعاؤں کا شجر سبز ہوا ورنہ ٹلتا ہی نہ […]

خدا ہی جانے ہمیں کیا خبر کہ کب سے ہے

جو اُن کے ذکر کا رشتہ ہمارے لب سے ہے نہ اُن سے پہلے کوئی تھا نہ اُن کے بعد کوئی جُدا جہاں میں نبی کا مقام سب سے ہے ہو دل کا نور، نگاہوں کا نور، علم کا نور ہر ایک نور کو نسبت مہِ عرب سے ہے مری پکار درِ سیّدالوریٰ تک ہے […]