سجا رہا ہے جو اب دل کے آئنے میں مجھے

وہ چھوڑ جائے گا اک روز راستے میں مجھے بھلا کے اس کو میں سب کچھ ہی بھول بیٹھا تھا سو اُس کو لانا پڑا پھر سے حافظے میں مجھے طلسمِ شب میں گھلی جب حسیں بدن کی مہک جدا لگا تھا ترا لمس ذائقے میں مجھے تو کیا ثبوت نہیں ہے چراغ ہونے کا […]

سجایا گلشن ِ ہستی کو جن گلابوں نے

سجایا گلشنِ ہستی کو جن گلابوں نے کیا ہے زرد مجھے ان کے سبز خوابوں نے اٹھائی جا رہی ہیں انگلیاں بھی چاروں طرف کئی سوال اٹھائے ترے جوابوں نے تمھارے بعد بھی جاری ہیں امتحاں میرے اکیلا چھوڑا نہیں عمر بھر عذابوں نے اٹے ہوئے ہیں اسی دھول میں یہ شام و سحر مجھے […]

سخن کے نام پہ شہرت کمانے والے لوگ

ہماری غزلوں سے مصرع اٹھانے والے لوگ لٹا رہے ہیں زمانے میں آج بینائی کسی کی آنکھ سےسرمہ چرانے والے لوگ بدل چکے ہیں ترے شہر کے گلی کوچے بھٹک بھی سکتے ہیں رستہ بتانے والے لوگ نہ پوچھ زندگی کیسے ، گزارا کر رہے ہیں نئے دنوں میں پرانے زمانے والے لوگ ہم اپنے […]

سمجھ رہے ہیں کسی آسماں میں رہتے ہیں

یہ خوش گمان جو تیرے گماں میں رہتے ہیں ترے خیال میں پل بھر ٹھہر گئے تو بہت ہم ایسے لوگ کہاں داستاں میں رہتے ہیں عجب جنوں ہے ، عجب نارسائی ہے اپنی کہ دشت زاد ہیں ، شہرِ بتاں میں رہتے ہیں جو دن سے تھک کے پہنچتے ہیں گھر تو ساری رات […]

طنابِ ذات کسی ہاتھ میں جمی ہوئی ہے

کہ جیسے وقت کی دھڑکن یہیں رکی ہوئی ہے تجھے روا نہیں پیغام وصل کے بھیجیں لکیر ہجر کی جب ہاتھ پر بنی ہوئی ہے ہر اک دراڑ بدن کی نمایاں ہوگئی ہے کہانی درد کی دیوار پر لکھی ہوئی ہے یونہی تو خواب ہمیں دشت کے نہیں آتے ہماری آنکھ کہیں ریت میں دبی […]

عقل تو خوش ہے مری تردید پر

دل کھڑا ہے پر رہِ توحید پر بات نے آخر پہنچنا ہے وہیں ہنس رہا ہوں میں تری تمہید پر سارے بچوں میں مرا بچپن ہی ہے جھنجلاتے ہیں مری تاکید پر سامنا اس سے ہوا ہے آج پھر جی اٹھا ہوں درد کی تجدید پر جائیے تو اب کدھر کو جائیے بیٹھیے تو کس […]

مری کہانی کے کردار سانس لیتے ہیں

میں سانس لوں تو مرے یار سانس لیتے ہیں ہم ایک دشت میں دیتے ہیں زندگی کی نوید ہمارے سینے میں آزار سانس لیتے ہیں کبھی تو وقت کی گردش تھکا بھی دیتی ہے سو تھام کر تری دیوار سانس لیتے ہیں اکھڑنے لگتی ہیں سانسیں الجھ کے سانسوں سے پھر اس کے بعد لگاتار […]

مزاجِ یار کیوں برہم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا

مرا بھی حوصلہ کچھ کم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا ضرورت ہوں تو آ کر جلد اپنے خواب لے جانا کہ پھر برسات کا موسم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا بہت شدھ راگ، دھن نایاب اور بیتار تانیں ہیں یہ کیسی تال ہے، کیا سم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا مرے سیدھے […]

ملے کچھ عشق میں اتنا قرار کم از کم

ہمارے چہروں پہ آئے نکھار کم از کم سنائی دینے لگے اُس کی دھڑکنوں سے صدا کسی سے اتناتو ہو ہم کو پیار کم از کم ہم اپنے خواب کی تعبیر کچھ نکالیں کیا کہ ایک لمحہ تو ہو پائیدار کم از کم مرے چمن میں خزاں رکھ چکی قدم لیکن مرے خیال کو ملتی […]

میرا جنوں خیال سے آگے نہ جا سکا

میں ہجر تجھ وصال سے آگے نہ جا سکا وہ خوش خرام لمحہءِ آئیندہ میں گیا اور میں رہ ملال سے آگے نہ جا سکا دل تک پہنچ کے رہ گیا سب دشتِ آرزو اس شہرِ پائمال سے آگے نہ جا سکا اتنے جواب آئے کہ سمجھا ہی کچھ نہیں میں تو اس اک سوال […]