دل کی دہلیز پر قدم رکھا
اُس نے کتنا مِرا بھرم رکھا اِک دُعائے شکستہ حرف کو بھی اُس کی بخشش نے محتشم رکھا پاسِ آدابِ دید تھا واللہ آنکھ پتھر تھی، دل کو نم رکھا خود خطاؤں نے آنکھ جھپکا دی اُس نے پیہم مگر کرم رکھا سوچتا ہوں مدینہ بستی میں رب نے کیا کیا نہیں بہم رکھا رُخ […]