انداز زندگانی کے سارے بدل کے آ
’’یہ کوچۂ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ‘‘ اس در پہ آ غرور کو دل سے نکال کر آتے یہاں ہیں کام عمل کب؟ سنبھل کے آ کانِ کرم ہے شہرِ مدینہ کی سرزمیں خاک اس کی واپسی پہ تو چہرے پہ مل کے آ گر چاہیے تجھے بھی غلامی کی عظمتیں اپنی انا […]