شب گزیدہ زیست میں وجہِ ضیا ہے بالیقیں

مدحتِ آقا متاعِ بے بہا ہے بالیقیں اُن کا ہی اسمِ کرم ہے طلعتوں کا نقشِ جاں باعثِ تسکینِ دل اُن کی ثنا ہے بالیقیں دیر سے دھڑکا نہیں ہے، دیر سے چہکا نہیں دل مدینے میں کہیں پر جا بسا ہے بالیقیں ایسے ہی خنداں نہیں ہیں شہر کے دیوار و در اذن بر […]

کمالِ جستجو تُو ہے، جمالِ آرزو تُو ہے

گماں سے ماورا ہو کے، یقیں کے روبرو تُو ہے تری مدحت ہی رکھتی ہے حصارِ یاس سے باہَر مرے احساس کا تو معنیٔ لاَ تَقْنَطُوا تُو ہے بہ موجِ تلخ خنداں ہُوں، بہ اوجِ کرب فرحاں ہُوں بہ ہر سُو خیر ہے آقا کہ میرا خیر جُو تُو ہے بہار آسا تری مدحت، ضیا […]

اے وقتِ رواں ! سُن ذرا رودادِ مدینہ

مہکی ہے سرِ مطلعِ دل یادِ مدینہ کھُلتے ہیں ذرا سے بھی جو حاجت کے دریچے آجاتی ہے تسکین کو امدادِ مدینہ تحسین کی زحمت نہ کریں حرف کے وارث کافی ہے مرے شعر کو بس دادِ مدینہ امکان میں رکھ دیتے ہیں اظہار کے منظر واللہ ! عطا خُو ہیں سخن زادِ مدینہ آواز […]

شبِ سخن کو طلعتوں کے طاقچے عطا ہُوئے

حروف کو جو مدحتوں کے قمقمے عطا ہُوئے بہشتِ شوق بن گئیں سفر کی ساری منزلیں مدینہ رو کو رحمتوں کے راستے عطا ہُوئے پھر اس کے بعد آنکھ کا نہیں جلا چراغِ شب میانِ دید حیرتوں کے سلسلے عطا ہُوئے عجیب دلنواز تھی وہ وصلِ نُور کی گھڑی کہ ہجر کو بھی قُربتوں کے […]

کیا عجب اوجِ کمالات ہے، ماشااللہ

سامنے شہرِ عنایات ہے، ماشااللہ ہمرہِ بادِ صبا مَیں بھی مدینے جاوٗں یہ بھی اِک موجِ خیالات ہے، ماشااللہ نعت کے رنگ میں کھِلتے ہُوئے الفاظِ دُعا نعت ہی حاصلِ دعوات ہے، ماشااللہ رات بھر گاتی رہے ارض یونہی ہجر کے گیت کوئی مہمانِ سماوات ہے، ماشااللہ آنکھ میں بھی ہیں اُسی یاد کے موتی […]

صد شُکر کہ ہم نعت سے منسوب ہُوئے ہیں

غالب سے سخنور جہاں مغلوب ہُوئے ہیں جو آپ سے پہلے تھے وہ سب خاص و چُنیدہ اے ختمِ رسل ! آپ تو محبوب ہُوئے ہیں وہ چاند ستارے تھے، رہے شب میں فروزاں اِک مہر کا آنا تھا کہ محجوب ہُوئے ہیں کیا صُحبت و نسبت کا تھا فیضانِ تغیّر جو عام تھے وہ […]

متاعِ زیست کا ہر پل سعید کرتا ہُوں

میں عطرِ نعت سے سانسیں کشید کرتا ہُوں نہیں ہے لائقِ سرکار میرا دل ہر گز درود پڑھ کے مُزکّیٰ مزید کرتا ہُوں پھر اس کے بعد اُترتا ہے مطلعِ مدحت سُخن کو عجز کا پہلے مُرید کرتا ہُوں بکھر ہی جاتا ہے دہلیزِ شوق پر آ کر ہزار حرفِ تمنا جدید کرتا ہُوں ثنائے […]

حشر میں پھیلے گا جب سایۂ غُفرانِ وسیع

ڈھانپ لے گا وہ مرا دفترِ عصیانِ وسیع بے طلب ملتا ہے ہر ایک کو حاجت سے سوا سب کی کرتا ہے کفایت ترا فیضانِ وسیع در بدر خوار ہوں کیوں، غیر کا منہ کیا دیکھیں ہم فقیروں کو خوش آیا ہے ترا خوانِ وسیع وہ جو نُصرت کا تری گونجا تھا میثاقِ ازل تا […]

اور کیا چاہیے بندے کو عنایات کے بعد

عجز، مستغنی ہُوا آپ کی خیرات کے بعد موجۂ بادِ مدینہ نے رکھی لاج مری دل تسلی میں ہے اب تلخئ جذبات کے بعد ساعتِ سیرِ معلّٰی سے ہُوئی رمز عیاں بخدا وقت ہے اِک اور بھی دن رات کے بعد عرش تو ایک پڑاؤ تھا ’’دنیٰ‘​‘​ سے آگے وہ ملاقات ہُوئی پردئہ لمعات کے […]

سخن کے خار زار کو حسِیں گُلاب مل گئے

درِ رسول سے حروفِ مستطاب مل گئے مَیں پہلی بار کے سفر میں، گو رہینِ عرض تھا بُلاوا آگیا تو اذن بے حساب مل گئے شفیعِ مذنبیں نے مجھ پہ کیا عجب کرم کیا گناہ ساتھ لایا تھا مگر ثواب مل گئے سوادِ شامِ کرب میں طمانیت کا دن کھِلا ازل کے ہجر زاد کو […]