’’تاروں کی انجمن میں یہ بات ہو رہی ہے‘‘
نجم و قمر کے لب پر جاری یہ ہر گھڑی ہے طیبہ کے ذرّے ذرّے سے ہر سمت روشنی ہے ’’مرکز تجلیوں کا خاکِ درِ نبی ہے‘‘
معلیٰ
نجم و قمر کے لب پر جاری یہ ہر گھڑی ہے طیبہ کے ذرّے ذرّے سے ہر سمت روشنی ہے ’’مرکز تجلیوں کا خاکِ درِ نبی ہے‘‘
رحم فرماؤ مجھ پر شاہِ کوثر یہ بندہ طالبِ لطف و کرم ہے ’’مری پیاس اور اک جام! کم ہے‘‘
وہ بِن مانگے گدا کو نعمتِ عظمیٰ عطا کر دیں شہِ کوثر غم و آلام کو دل سے فنا کر دیں ’’نبی مختارِ کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کر دیں ‘‘
ہیں وہی سالارِ عالی، عاشقانِ مصطفی اُن سے جو پھر جائے اُس کی زندگی اچھی نہیں ’’اس رضائے مصطفی سے دشمنی اچھی نہیں ‘‘
زینتِ شمعِ شبستانِ مدینہ اخترؔ شوق ہیں شاہِ مدینہ کی صفت آرائی کے ’’حوصلے مجھ کو نہیں قافیہ آرائی کے‘‘
ہے کون جو کرے گا مداوائے غم یہاں جتنے تھے سب رفیق ہمارے، بدل گئے ’’جو غم میں ساتھ دیتے وہ سارے بدل گئے‘‘
راہِ طیبہ کی طرف چلتے ہوئے پھولو پھلو کیف میں جھومتے رہو اوج پہ پہنچا بخت ہے ’’جذب سے دل کے کام لو اُٹھو کہ وقتِ رفت ہے‘‘
ہر ایک سے بلند تر رتبہ اُسے تو مِل گیا حاصل اُسے بقا ہوئی اُلفت میں جو فنا ہوا ’’اُس کی خدائی ہو گئی اور وہ خدا کا ہو گیا‘‘
یورشِ کرب و ابتلا حیران دل کو کر گئی شاہِ مدینہ لیں خبر اب مجھ پہ وقت سخت ہے ’’تاب نہ مجھ میں اب رہی دل میرا لخت لخت ہے‘‘
کہ چارہ گر سے ہر اک درد کی دوا پائیں کبیدہ ہوں نہ کبھی بھی ستم کے دریا سے ’’صدا یہ آتی ہے سُن لو مزارِ مولا سے‘‘