’’یہ کس کے دم سے مِلی ہے جہاں کو تابانی‘‘
زمانہ کس کے کرم سے ہوا ہے نورانی اُجالا پھیلا ہر اک سمت نورِ آقا سے ’’مہ و نجوم ہیں روشن منارِ طیبہ سے‘‘
معلیٰ
زمانہ کس کے کرم سے ہوا ہے نورانی اُجالا پھیلا ہر اک سمت نورِ آقا سے ’’مہ و نجوم ہیں روشن منارِ طیبہ سے‘‘
سوچتے ہیں کہ اِس دل سے مٹیں غم کیسے سایۂ گیسوٗے رحمت مرے آقا دے دو ’’اپنے دامانِ کرم کا ہمیں سایا دے دو‘‘
پسند اُس کو گل کی نہ کچھ تازگی بھی کہ جو ہو گیا ہے نثارِ مدینہ ’’جنھیں بھا گیا خارزارِ مدینہ‘‘
غم و آلام سے میں ہو گیا آقا رنجور گنبدِ سبز دکھاؤ تو بہت اچھا ہو ’’اپنے قدموں میں سلاؤ تو بہت اچھا ہو‘‘
پل میں لوٹایا ہے خورشیدِ درخشاں آپ نے پتھروں نے دی گواہی اے مرے جانِ جمال ’’مرحبا صد مرحبا صلِ علیٰ شانِ جمال‘‘
ہو رہا ہے اُن پہ وہ سدرہ کا شہِ پر بھی فدا رشکِ مہر و ماہ و اختر ہیں سراسر ایڑیاں ’’مرحبا کتنی ہیں پیاری اُن کی دل بر ایڑیاں ‘‘
ہر اک کو نعمتِ دارین اُن سے ملتی ہے جو ان کے در پہ مِٹوں کام یاب ہو جاؤں ’’میں کیوں نہ وقفِ درِ آں جناب ہو جاؤں ‘‘
’’طوقِ تہذیبِ فرنگی توڑ ڈالو مومنو‘‘ اس میں اپنی زندگی ہرگز نہ ڈھالو مومنو حق کے متوالو! سنو یہ زندگی اچھی نہیں ’’تیرگی انجام ہے یہ روشنی اچھی نہیں ‘‘
سختیِ خورشیدِ محشر سے حفاظت بھی کریں تیرے پیارے کی خدایا! مہرِ انور ایڑیاں ’’آسمانِ نوٗر کی وہ شمسِ اظہر ایڑیاں ‘‘
اک تصور سے ہی روضہ کے مزا آتا ہے مجھ پہ سوغاتِ کرم اُس نے لٹایا ہو گا ’’ہو نہ ہو اس نے مجھے آج بُلایا ہو گا‘‘