’’بڑھے حوصلے دشمنوں کے گھٹا دے‘‘
اے بغداد والے تُو اُن کو مٹا دے بڑھے جا رہے ہیں ستَم غوثِ اعظم ’’ذرا لے لے تیغِ دو دَم غوثِ اعظم‘‘
معلیٰ
اے بغداد والے تُو اُن کو مٹا دے بڑھے جا رہے ہیں ستَم غوثِ اعظم ’’ذرا لے لے تیغِ دو دَم غوثِ اعظم‘‘
اُس کا چرچا بڑھے از افق تا افق جس نے مدحت تمہاری سکھائی ہے ’’راہ جس نے تمہاری چلائی ہے‘‘
نہیں جس کے دل میں وہ کیا ہو مسلماں جو مٹ جائے اُن پر وہی با وفا ہے ’’اگر یہ نہیں ہے تو ایماں ہَوا ہے‘‘
رب نے مختارِ کل تجھ کو ہی کر دیا تیری ہی تو خدا تک رسائی ہے ’’تیرے قبضہ میں ساری خدائی ہے‘‘
نفسی نفسی کا عالم تھا، درد و غم سب دوٗر ہوا مژدہ سُن کر میرے شاہا ’’دم میں ہے دم میرے آیا ‘‘
اک نگاہِ التفات اے میرے شاہا کیجیے زور پر طوفان ہے کچھ آسرا ملتا نہیں ’’ناؤ ہے منجدھار میں اور ناخدا ملتا نہیں ‘‘
بصر کے ساتھ بصیرت مری مجلّا ہو قرار آئے مری بے قرار آنکھوں میں ’’اگر وہ آئیں کبھی ایک بار آنکھوں میں ‘‘
گلاب و موگرا، جوہی، چنبیلی اور چمپا ترے ہی دم سے ہے پھیلی بہار آنکھوں میں ’’ترا ہی جلوا ہے ان بے شمار آنکھوں میں ‘‘
اِسی میں تو عاشق کو حاصل مزا ہے فنا اِس میں جو ہو اُسے ہی بقا ہے ’’ترا دردِ اُلفت ہی دل کی دوا ہے‘‘
نورِ قادرِ مطلق آقا دور ہوا سب تجھ سے اندھیرا ’’تیرے دم سے عالم چمکا ‘‘