’’ثنا منظوٗر ہے اُن کی نہیں یہ مدعا نوریؔ ‘‘
نبی کے عشق و الفت کے ہو تم اک رہِ نما نوریؔ کہ باغِ نعت کے اک بلبلِ شیریں بیاں تم ہو ’’سخن سنج و سخن ور ہو سخن کے نکتہ داں تم ہو‘‘
معلیٰ
نبی کے عشق و الفت کے ہو تم اک رہِ نما نوریؔ کہ باغِ نعت کے اک بلبلِ شیریں بیاں تم ہو ’’سخن سنج و سخن ور ہو سخن کے نکتہ داں تم ہو‘‘
جوانی کی عبادت ہے یقیناً باعثِ عزّت مخاطب خود سے ہو کر کہتے ہیں سب کو، کہاں تم ہو؟ ’’جو کچھ کرنا ہو اب کر لو ابھی نوریؔ جواں تم ہو‘‘
’’ گرفتارِ بلا حاضر ہوئے ہیں ٹوٹے دل لے کر ‘‘ کرم فرمائیے شاہِ مدینہ ہم گداؤں پر مداوائے غمِ دوراں شہِ خیر الورا تم ہو ’’ کہ ہر بے کل کی کل ٹوٹے دلوں کا آسرا تم ہو ‘‘
وہ تھم جائے تصور سے آقا آپ کے فوراً معاون خود ہماری تیز تر منجدھار ہو جائے ’’اشارا آپ فرما دیں تو بیڑا پار ہو جائے‘‘
اُسی کی طاری رہے جان و دل میں مخموٗری ہو جس سے پیدا سروٗر و بہار آنکھوں میں ’’رہے ہمیشہ اُسی کا خمار آنکھوں میں ‘‘
اشارے سے تمہارے چاند بھی ہو جائے دو ٹکڑا کنواں میٹھا، جو چاہو تو شہِ ابرار ہو جائے ’’جو تم چاہو کہ شب دن ہو ابھی سرکار ہو جائے‘‘
گلوں میں، لالہ زاروں میں، چمن میں مرغ زاروں میں یقیناً باعثِ تزئینِ گلِستاں بوستاں تم ہو ’’بہاروں میں نہاں تم ہو بہاروں سے عیاں تم ہو‘‘
حالِ دل شاہِ مدینہ کو سنا نے کو نہ دیا جالیِ پاک کو آنکھوں میں بسا نے نہ دیا ’’چشم و دل سینے کلیجے سے لگا نے نہ دیا‘‘
’’میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں ‘‘ بجز تیرے صدقہ کہاں سے میں پاؤں ترا نام آقا پکارا کروں میں ’’ ترے در سے اپنا گذارا کروں میں ‘‘