جہاں نقشِ قدم واں پر جبیں ہو
عقیدت سے خمیدہ سر وہیں ہو ملوں چہرے پہ خاکِ پا میں اُنؐ کی قبیح و بدنما چہرہ حسیں ہو
معلیٰ
عقیدت سے خمیدہ سر وہیں ہو ملوں چہرے پہ خاکِ پا میں اُنؐ کی قبیح و بدنما چہرہ حسیں ہو
جس کی مداح کبریائی ہے عشق اُنؐ کا ہے میرا سرمایہ باقی جو چیز ہے پرائی ہے
ہجومِ بیکساں خانہ بدوش و در بہ در آقاؐ مسلماں ایک دوجے کا ظفرؔ یاں خوں بہاتے ہیں یاں مظلوموں کا دامن خون سے ہے تر بتر آقاؐ
غلامِ کم تریں منصب ہے میرا ظفرؔ درباں بنا کے اپنے در کا مجھے سرکارؐ نے اعزاز بخشا
سہارا ہیں وہ مجھ بے بال و پر کا گھنا سایہ ہیں میرے ننگے سر کا میں صدقہ کھا رہا ہوں اُنؐ کے گھر کا
ہر وقت مدینے کی فضا دیکھ رہا ہوں اِک ذرۂ ناچیز پہ یہ اُنؐ کا کرم ہے میں کیا ہوں ظفرؔ اور میں کیا دیکھ رہا ہوں
مرے سرکارؐ یکتا منفرد سب سے جُدا آئے دیا پیغام انسانوں کو توحید و رسالت کا خدا تک رہنما بن کر وہ محبوبِ خدا آئے
رحمتوں کا نزول ہوتا ہے جب بھی پڑھتا ہوں میں درود و سلام دِل مرا کھِل کے پھول ہوتا ہے
مرا محبوب ہے وہ جو حبیبِ کبریا ہے ظفرؔ وہ ہی مسیحائے ہمہ مُردہ دِلاں ہے مریضِ جاں بلب کو بھی وہی دیتا شفا ہے
مری نعتوں میں سلاموں میں نکھار آپ سے ہے ایک ہو جائیں مسلمان سبھی دُنیا کے مری فریاد ظفرؔ میری پُکار آپؐ سے ہے