سب توڑ دیں حدود ، مرا دل نہیں لگا

زندان تھا وجود ، مرا دل نہیں لگا من میں منافقت لئے پڑھتی رہی نماز تھے نام کے سجود ، مرا دل نہیں لگا اے رب دو جہان ترے اس جہان میں کوشش کے باوجود ، مرا دل نہیں لگا اس بار شوقِ وصل کی لذت بھی کھو گئی طاری رہا جمود ، مرا دل […]

بدن میں زندگی کم ہے سوا اذیت ہے

رگیں ادھیڑ کے دیکھو کہ کیا اذیت ہے تو کیا خدا مری حالت سمجھ نہیں سکتا میں چیخ چیخ کے بولوں ؟ خدا ! اذیت ہے لویں اجاڑ دیں اور روشنی کا قتل کیا چراغِ شام سے پوچھو ، ہوا اذیت ہے ہزار بار کی مانگی ، نہیں قبول ہوئی ہم ایسے منکروں کو اب […]

صلیبِ مرگ پہ آؤ بدن اتارتے ہیں

تمام عمر کی لادی تھکن اتارتے ہیں وہ میری ذات سے یوں منحرف ہوا جیسے کسی قمیض سے ، ٹوٹے بٹن اتارتے ہیں غزال شخص ! تم اِتراو ، حق بھی بنتا ہے تمہاری آنکھ کا صدقہ ہرن اتارتے ہیں ہر ایک سانس ادھڑتی ہے سود بھرتے ہوئے یہ قرضِ زندگی سب مرد و زن […]

دیویوں کو مندروں میں جاپ کی خاطر ملے

لوگ سمجھے داس اُن سے پاپ کی خاطر ملے عاجزی سیکھی کہ تربیت کو سب اچھا کہیں ہم تو جھک کے سب سے ہی ماں باپ کی خاطر ملے زندگی ہم سے ملی یوں جیسے داروغہ کوئی مجرموں سے گردنوں کے ناپ کی خاطر ملے ہم نے گھر آئے ہوئے مہمان کا رکھا خیال تیرے […]

غزال آنکھوں کو ، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں

پرانے شاعر نئی زمینوں کو دیکھتے ہیں تو علم ہوتا ہے سانپ بچھو پلے ہوئے تھے اگر کبھی اپنی آستینوں کو دیکھتے ہیں تمہارا چہرہ ، تمہارے رخسار و لب سلامت کہ ہم تو حسرت سے ان خزینوں کو دیکھتے ہیں بچھڑنے والے اداس رت میں کلینڈروں پر گزشتہ سالوں ، دنوں ، مہینوں کو […]

آپ کی آنکھیں اگر شعر سُنانے لگ جائیں

ھم جو غزلیں لیے پھرتے ھیں ٹھکانے لگ جائیں ہم اگر روز بھی اک یاد بُھلانے لگ جائیں تیری یادوں کو ُبھلانے میں زمانے لگ جائیں ھم تہی ظرف نہیں ھیں کہ محبت کر کے کسی احسان کے مانند جتانے لگ جائیں ہائے وہ بے چارگیٔ عشق کہ وہ پتھر دل ٹھوکریں مارے تو ہم […]

اک آدھ روٹی کے واسطے کیسے کیسے چکر چلا رھا ھُوں

مِرے خُدا ! تُو تو جانتا ھے مَیں جس طرح گھر چلا رھا ھُوں تُمہارے پیروں سے جو چُھوئے تھے وہ مَیں نے جیبوں میں بھر لیے تھے طلائی سِکّوں کی جگہ مَیں آج بھی وہ کنکر چلا رھا ھُوں تُمہی بتاؤ، تمہارے دل پر چلے بھی کیسے مِری محبت ؟ یہ گہرے پانی کی […]

بجائے کوئی شہنائی مجھے اچھا نہیں لگتا

محبت کا تماشائی مجھے اچھا نہیں لگتا وہ جب بچھڑے تھے ہم تو یاد ہے گرمی کی چھٹیاں تھیں تبھی سے ماہ جولائی مجھے اچھا نہیں لگتا وہ شرماتی ہے اتنا کہ ہمیشہ اس کی باتوں کا قریباً ایک چوتھائی مجھے اچھا نہیں لگتا نہ جانے اتنی کڑواہٹ کہاں سے آ گئی مجھ میں کرے […]

کام کو آدھا کر لیتے ہیں

عشق زیادہ کر لیتے ہیں درد سے جب بھر جائے دل تو اور کشادہ کر لیتے ہیں پیار تو وہ بھی کرتے ہیں پر ہم کچھ زیادہ کر لیتے ہیں میں اور دشمن فرض کا اپنے روز اعادہ کر لیتے ہیں ہجر کی لمبی راتوں کو ہم کاٹ کے آدھا کر لیتے ہیں شاہ گرانا […]

اک بہانہ تھا شام سے پہلے

لوٹ آنا تھا شام سے پہلے شام کے بعد جیت جاتے ناں ہار جانا تھا شام سے پہلے رات جو رونے دھونے بیٹھو گے غم سنانا تھا شام سے پہلے اب بھلا رات کیسے گزرے گی دل دُکھانا تھا شام سے پہلے چاہے تم بعد میں مُکر جاتے مان جانا تھا شام سے پہلے یہ […]