پھر آپ نے کہا کہ ’’ یہ مانو خدا ہے ایک
اِس ساری کائنات کا حاجت روا ہے ایک معبود سب کا ایک ہے مشکل کشا ہے ایک مولائے آب و آتش و خاک و ہوا ہے ایک مشہود وہ ہے اور میں اس کا شہید ہوں میں مصطفی رسولِ خدائے وحید ہوں ‘‘
معلیٰ
اِس ساری کائنات کا حاجت روا ہے ایک معبود سب کا ایک ہے مشکل کشا ہے ایک مولائے آب و آتش و خاک و ہوا ہے ایک مشہود وہ ہے اور میں اس کا شہید ہوں میں مصطفی رسولِ خدائے وحید ہوں ‘‘
چیخا پہاڑ ، دشت پکارا ” نہیں نہیں ” بولا حدِ زمیں کا کنارا ” نہیں نہیں ” رب نے کسی کو کہہ کے اُتارا ” نہیں نہیں ” قومِ حجاز بولی دوبارہ ” نہیں نہیں ” کہنے لگے وہ دِل کی گرہ کھولتے ہوئے دیکھا ہمیشہ آپ کو سچ بولتے ہوئے
دامن میں کر کے جمع عرب کے عوام کو فرمایا نورِ صبح نے ظلماتِ شام کو دیکھو تو جھانک کر مِرے ماضی تمام کو بچپن سے جانتے ہیں قبیلے سبھی مجھے دیکھا ہے جھوٹ بولتے تم نے کبھی مجھے ؟
حاجت اِدھر ہے ایک تو بخشش اُدھر ہزار تارِ نَفَس اِدھر ، اُدھر الطاف کی قطار بے حد مری خطائیں ، کرم اس کے بے شمار اِتراؤں کس لئے نہ میں اپنے نصیب پر وہ شاہ مہربان ہے مجھ سے غریب پر
واحد ، اَحَد ، وحید اسی کے سبھی لقب وہ آرزو کی جان ہے وہ لذّتِ طَلَب وِرد اس کا زیبِ قلب ہے ذکر اس کا فخرِ لَب دھڑکن کی یہ صدا تو خِرد کی دلیل ہے سینے میں ورنہ ذکرِ خدائے جمیل ہے
مالک تمام سلسلۂ ممکنات کا رازق ہے جِنّ و اِنس و مَلک کی حیات کا خالق ہے رنگ و زاویۂ شش جہات کا ممنون ، خدوخالِ جہاں اس کی ذات کے اس نے تراشے نقش رُخِ کائنات کے
ہیں طائرِ خیال و تفکرّ کے خام پر وجدان و عقل و ہوش جھکیں اس کے نام پر حیرت بجاں ہے آدمی اس کے نظام پر تَر ہے جبینِ فن عرقِ انفعال سے بالا ہے وہ گماں سے خِرد سے خیال سے
ہر عہد، ہر مقام کا، آنات کا نبی شمس و مہ و نجوم کا، ذرّات کا نبی وہ شرق و غرب و ارض و سماوات کا نبی فن کار، فن، شعور، ہُنر اس کے اُمّتی جذبات، اشک، قلب، نظر اس کے اُمّتی
رنگوں کا، خوشبوؤں کا، خیالات کا نبی موسم کا، روشنی کا، نباتات کا نبی شیشوں کا، پتھروں کا، جمادات کا نبی رہرو، شدید دھوپ، سفر، اس کے اُمّتی سایہ، قیام، کُنجِ شجر اس کے اُمّتی
بھیگی سُلگتی شب میں فسردہ دلوں کی ہُوک پت جھڑ کی زد میں آئی ہوئیں کونپلیں مُلوک صیّاد دیدہ صید میں وہ شانتی کی بھُوک ایمن کا ہو کلیم کہ یوسف ہو چاہ کا ہر جذبہ مدح خواں ہے رسالت پناہ کا