اٹکا ہے بڑی دیر سے خوش فہم کا دم بھی

تم ہاتھ جھٹک دو کہ سہولت سے مَرے دل یہ کم ہے کہ بے آس دھڑکتا ہے ابھی تک اب اور بھلا خآک کرامات کرے دل جاتے ہوئے لمحے نہ ٹھہرنے تھے وگرنہ سجدے کیے رستوں میں تو قدموں دھرے دل اب کوئی صدا ہے ، نہ گلہ ہے ، نہ تقاضہ بیٹھا ہے زمانے […]

شکوہِ مرگِ آرزوُ بھی نہیں

کوئی سامع نہیں ہے توُ بھی نہیں اب مخاطب کوئی نہیں میرا اور اب کوئی روبروُ بھی نہیں میں زمیں بوس ہی نہ ہو جاؤں میری بوسیدگی کو چھوُ بھی نہیں بیج دفنا رہے ہو خوابوں کے میری قدرت میں جب نموُ بھی نہیں گمشدہ خود کو ڈھونڈتا ہوں میں اب تمہاری تو جستجوُ بھی […]

جاگ اٹھا تو جنوں کس کو بھلا چھوڑے گا

مجھ کو چھوڑے گا نہ کچھ میرے سوا چھوڑے گا تار ہو کر جو تنے جاتے ہیں لمحہ لمحہ درد اعصاب کو مضراب بنا چھوڑے گا جس کے اک ہاتھ میں اشعار ہیں اک میں وحشت کیا ترے ہاتھ کو تھامے گا وہ کیا چھوڑے گا بھیڑیا گھات میں ہے سچ کا لپکنے کے لیے […]

راہِ خیال سے تو بہت قافلے گئے

لیکن سرائے خواب میں کوئی نہیں رہا میرے سوا بھی عشق بہت سوں کو راس تھا یوں مستقل عذاب میں کوئی نہیں رہا کام آ گئے تمام ہی گوشہ نشینِ دل ہستی کے انقلاب میں کوئی نہیں رہا اٹھی تھی ایک پل ترے مجذوب کی نظر سنتے ہیں پھر نقاب میں کوئی نہیں رہا چارہ […]

بے دلی کا کوئی توڑ ، ائے وحشتو؟

کچھ مداوائے یکسانیت ، شاعری ؟ ترمروں کے سوا کچھ بدلتا نہیں دشتِ بے شکل کی اف یہ کم منظری کچھ رفُو ہے کہیں ؟ چاکِ دل کے لیے کانچ کے خواب کی کوئی شیشہ گری؟ کوئی جنبش نہیں شوقِ پامال میں سانس کا زیر و بم ، نہ کوئی جھرجھری نارساء اب کسی دوش […]

دہر میں کون ہمیں تیرے سوا جانتا ہے

تو بھی افسوس نہیں جانتا کیا جانتا ہے ہم نے وہ بوجھ اٹھائے ہیں کہ اٹھنے کے نہ تھے عمر جس طور سے کاٹی ہے خدا جانتا ہے تیرے بے کس نے سنا ہے جو کہا ہے تو نے اور وہ بھی جو کہا جا نہ سکا جانتا ہے جانتا ہے دلِ کم بخت کہ […]

الحذر ، الاماں ، الحذر ، الاماں

شہرِ مدفون کے نوحہ گر ، الاماں تذکرہ ایک تو شدتِ کرب کا اور پھر شاعری کا ہنر ، الاماں زخم ہوں عشق کے، جن کا مرہم نہیں اور پھر زخم بھی اس قدر ، الاماں یہ دلِ خواب گر کاش برباد ہو پھر سے درپیش ہے اک سفر ، الاماں رینگتی جستجو کا بدن […]

کچھ اور نہ بن پائے بھلے شہر بدر سے

دل بیل کی مانند لپٹ جائے گا در سے پہنچا ہوں کسی اور ہی دنیا میں کہیں پر لوٹا ہوں کسی اور زمانے کے سفر سے ناقابلِ تشریح تھی رفتار قضا کی آنکھیں ہی فقط موند سکا موت کے ڈر سے اب ترکِ تمنا کی وہ منزل ہے جہاں پر شکوہ بھی نہیں کوئی دلِ […]

کُھلنے کا اب نہیں ہے یہ دروازہِ جنوں

قیدِ جنون بن گئی خمیازہِ جنوں شاید ترے فقیر کی جھولی الٹ گئی پھیلا ہوا ہے شہر میں شیرازہِ جنوں نازک مزاج ، اپنے تخیل کو مت تھکا تیری بساط میں نہیں اندازہِ جنوں محوِ سفر کے ساتھ تری بازگشت تھی یا دور گونجتا ہوا آوازہِ جنوں جھڑنے لگی ہے جیسے کہولت ترے حضور ائے […]

ائے شہرِ طلسمات بتا ہاتھ میں کیا ہے

ویسے تو مرا درد مجھے ہوش ربا ہے گزری ہے کبھی عمر فقط چشم زدن میں یا یوں کہ کبھی سانس بھی سالوں میں لیا ہے بے عیب جراحت کے محاسن پہ نظر کر ائے چشمِ لہو پوش ترے کرب کا کیا ہے جاتا ہوا وہ تو ہے سرِ منظرِ شب ، اور وہ میں […]