ہو چکے معتبر کمال مرے

تیر پہلو سے اب نکال مرے دل تہہِ آب جا کے بیٹھ رہا گھل گئے جھیل میں خیال مرے یہ وہی لمحہِ جنون نہیں؟ کھا گیا تھا جو ماہ و سال مرے کوزہ گر، نم خمیر میں ہے ابھی نقش پھر ایک بار ڈھال مرے دے گیا ذہن ہی جواب مرا مطمئن ہوگئے سوال مرے […]

ہے ہمیں ہجر کی بھٹی میں پگھلنا سب کچھ

کیمیا ہوں کہ مسِ خام ، غرض یہ بھی نہیں ہے کوئی باقائدہ آغاز نہیں تھا کل بھی کوئی باضابطہ انجام ، غرض یہ بھی نہیں ہے کیوں چھپاتا ہے عبث اپنے بدن کے غنچے تجھ سے ائے پیکرِ گلفام ، غرض یہ بھی نہیں ہے ہم سے رکتی ہی نہیں سینہِ بِسمل میں صدا […]

بہت تلاش کرے گا ترا سنگھار مجھے

جمالِ یار ترا آئینہ شکست ہوا مقابلے پہ میں اپنے اتر نہیں پایا کہ حوصلہ مری دہشت سے میرا پست ہوا کہاں گئے ترے عشاقِ جاں نثار ، بتا مجھے تو چھوڑ کہ میں تو ہوس پرست ہوا پھر ایک اور مسافت کو بادبان کھلے پھر ایک اور قیامت کا بند و بست ہوا ہزار […]

کو بکو ڈھونڈا گیا اور جا بجا ڈھونڈا گیا

وہ جو نا موجود تھا اس کا پتا ڈھونڈا گیا کوئی اترا ہی نہیں سیلِ بلا کی گود میں سرسری سا یوں تو مجھ کو بارہا ڈھونڈا گیا اک تجسس تھا کہ جس سے سانس لی جاتی رہی عمر بھر تارِ تنفس کا سرا ڈھونڈا گیا زندگی تھی مختصر سو بد حواسی میں کٹی جانے […]

عصرِ حاضر ، مری توہین تو مت کر پھر بھی

میں کسی عہدِ گزشتہ کا خداوند سہی حسن دیکھے تو سہی زخم کے رِستے گوشے عشق خاموش سہی، ظرف کا پابند سہی سوچ لے پھر کہ میں اک بار ہی مر پاؤں گا کھیل دلچسپ سہی میں بھی رضامند سہی بیڑیاں ہیں تو چلو شوق کو پازیب ملی رہ گیا طوق تو وحشت کو گلو […]

اب ترکِ آرزو ہی مناسب ، کہ آرزو

اس عہدِ ناشناس میں شرمندگی ہوئی سمجھے گئے فنون ، ہوس کی حکائیتیں رسوائیوں کا رزق مری شاعری ہوئی تیری ذہانتوں نے بچا لی ہے لاج ، اور عریاں بیان ہو کے مری سادگی ہوئی مٹی میں مل گئی ہے بصد عجز آخرش وہ جو جبین تھی ترے در پر دھری ہوئی خواہش عجیب تھی […]

میں اپنی ذات سے ہجرت کا سانحہ سہہ لوں

تمہارے ہجر کی افتاد کوئی چیز نہیں میں چاہتا ہوں بتاؤں مگر بتاؤں کیا یقین کر کہ مجھے یاد کوئی چیز نہیں ہر ایک شب یہی مشکل کہ اب کہاں جاؤں بنامِ خانہِ برباد کوئی چیز نہیں وہ حال ہے کہ سرِ نامہِ کمال و ہنر سوائے عزتِ اجداد کوئی چیز نہیں مرے فنون کی […]

جب تلک باقی رہے آنکھوں میں بینائی دکھا

جو دکھانا چاہتا ہے ، عہدِ رسوائی دکھا لے ترے قدموں میں لا ڈالا ہے اپنی لاش کو اب اگر اعجاز رکھتا ہے ، مسیحائی دکھا خون سے لکھے ہوئے اشعار کی تشہیر پر جو ترے حصے میں آئی وہ پذیرائی دکھا تیری ہئیت ہی سراپا تذکرہ ہے دشت کا کیا ضرورت ہے کہ اس […]

رات کٹتی ہے مگر تارِ تنفس ہو کر

اور تو خوابِ سحر ہے سو تجھے کیا دیکھیں ایک اک کر کے سبھی خواب بکھرتے جائیں اور ہم دور کھڑے ہو کے تماشہ دیکھیں تیرے حصے میں خیانت نہیں کرنی آئی ہم اگر خواب بھی دیکھیں تو وہ آدھا دیکھیں کانچ ٹھہرے تو ترا عکس ہی صیقل کر لیں آئینہ ہو کے تجھے خود […]

حسابِ سود و زیاں بعد میں بتاتا ہوں

غبارِ خانہِ برباد بیٹھ تو جائے خموش جھیل پہ ساکت ہے زرد چاند جہاں وہیں پہ سر کو جھکائے کھڑے ہیں دو سائے بس ایک بار تعین تو منزلوں کا کرے مجھے جنون بھلے راہ بھی نہ دکھلائے ہوائے ہجر کثافت میں ریت ہو جیسے میں چاہتا ہوں مجھے سانس بھی نہیں آئے مرے خیال […]