کر کے دیکھا ہے بہت غَور ، نہیں سوجھتا ہے

حادثہ ہے کہ کوئی دَور ، نہیں سوجھتا ہے عہدِ موجود و گزشتہ کے جو مابین ہے ، وہ عمر ہے یا کہ ہے کچھ اَور ، نہیں سوجھتا ہے بات کیا خاک بناؤں کہ مقابل تم ہو کچھ بہانہ بھی تو فی الفَور ، نہیں سوجھتا ہے چھیڑ بیٹھا ہوں پھر اک بار اسی […]

واقف جہانِ غم سے نہ ہو ، اپنے غم سے ہو

ہونا ہے پائمال تو اپنے قدم سے ہو اب بھی اجل رسید جنوں منتظر ہیں ہم جیسے کہ لوٹنا ترا ممکن عدم سے ہو شوقِ تماش بین ، کوئی اور نام چُن شاید کہ اب کی بار تماشہ نہ ہم سے ہو آنا ہے روبرو تو کئی مرحلوں میں آ سورج کا سامنا ہے کہاں […]

یوں بھی تری خوشی کو تماشہ کیا گیا

بعد از شکستِ خوابِ محبت جیا گیا بیٹھے رفو گرانِ جنوں ہار کر کہاں لب سی لیے ہیں زخم نہیں جب سیا گیا بہلا ہوا ہے آج دلِ خآم کار یوں جیسے جو گمشدہ ہے اسے پا لیا گیا کم بخت ظرف روٹھ بھی سکتا نہیں کہ اب ہم کو بڑے خلوص سے دھوکہ دیا […]

اس قدر رنگ چھپائے تو نہیں جا سکتے

ہم پسِ مرگ بھلائے تو نہیں جا سکتے تم ہو سورج تو ذرا آؤ سوا نیزے پر صرف اک دھوپ سے سائے تو نہیں جا سکتے کچھ مقدر کی عنایات ہیں لازم ورنہ اس قدر درد کمائے تو نہیں جا سکتے کس کو معلوم کہ اس شخص پہ کیا بیت گئی بے سبب پھول جلائے […]

لہو کا رنگ مرا ترجمان ہو تو ہو

زبانِ حال سے قصہ بیان ہو تو ہو میں چاہتا ہوں ملاقات ہو سکے خود سے مگر گمان کبھی مہربان ہو تو ہو افق کے پاس جو معدوم ہو گیا ہے ابھی وہی غبار مرا کاروان ہو تو ہو پہنچ چکے ہیں مرے پر ،زمین پر پہلے مرے وجود کی باقی اڑان ہو تو ہو […]

کروٹ بدل بدل کے تو پہلو ہوئے ہیں شل

ائے غم کبھی تو شام کے سورج کے ساتھ ڈھل اب جو بھی مانگ لے وہی قیمت قبول ہے ائے عشقِ بدگمان بھلے جان لے کے ٹل اتنی کہاں حیات کہ جتنا ہے فاصلہ ائے کاروانِ درد ذرا اور تیز چل ائے دل ابھی سحر کی سپیدی کہیں نہیں سو شمع دانِ ضبط میں کچھ […]

یوں بھی تو شب کدے کا دریچہ نہ وا ہوا

میں لوٹ کر جو آ نہیں پایا تو کیا ہوا خوابوں کی سرزمین سے پھوٹا تھا میں کبھی اور خواب دیکھتے ہوئے آخر فنا ہوا لے تھام میری آخری سانسیں بھی اور بتا ائے عشق تیرا قرض کہاں تک ادا ہوا جلوہ فروز ہے وہ جھروکے میں یاد کے میں آج بھی ہوں سر کو […]

جو ایک باس گھنے جنگلوں میں آتی ہے

وہی مہک سی تری گیسوؤں میں آتی ہے یہ المیہ ہے کہ میں جس پہ خوب ہنستا ہوں کہ اس کو نیند مرے بازوؤں میں آتی ہے گزر گئی ہے پھر اک اور رات سوچتا ہوں جو روشنی سی کبھی روزنوں میں آتی ہے شکست، کرب، ندامت، خجالتیں، وحشت یہ ایک جان بڑی مشکلوں میں […]

دریدگی بھی حقیقت ہے چاک واقعہ ہے

میں مشتِ خاک سہی ، پر یہ خاک واقعہ ہے وجود گرچہ سلامت ہے اور میں زندہ یقیں کی موت مگر کربناک واقعہ ہے نہ گفتگو، نہ وضاحت نہ راہ و رسم کوئی یہ واپسی بھی عجب بے تپاک واقعہ ہے میں خود کشی بھی نہیں کر سکا ترے غم میں مری حیات ہی اندوہناک […]

ہو گئے شاہِ سخن خاک نشیں بیٹھ رہے

پیار سے ہم کو بلاتی تھی زمیں بیٹھ رہے تم بھی تھک ہار گئے درد کا درماں کرتے ہم بھی لاچار پسِ مرگِ یقیں بیٹھ رہے تو بہت دور، بہت دور ، بہت دور ہوا ہم تری کھوج میں یونہی تو نہیں بیٹھ رہے ان کا کیا ہے کہ فراموش ہوئے یا نہ ہوئے راہ […]