اُڑتے ہوئے غبار میں اجسام دیکھتے

ہم تھک چکے مناظرِ ابہام دیکھتے اتنی قلیل عمر میں ممکن کہاں کہ لوگ اتنے شدید درد کا انجام دیکھتے صبحِ فراقِ یار تلک سنگ رہ گیا اس دل کی رونقوں کو سرِ شام دیکھتے جھپکی ہے آنکھ آج کہ اک عمر ہو گئی لوحِ ہوا پہ نقش کوئی نام دیکھتے ائے کاش ہم بھی […]

یہ مشورہ ہے کہ فی الحال ہمکلام نہ ہو

کہ چاٹتی ہے مرے فکر و فن کو آگ ابھی مرے حروف اڑاتے ہیں اب مذاق مرا یہ جی میں ہے کہ لگا دوں سخن کو آگ ابھی تو اپنے موم کے کرتب زرا موخر کر لگی ہوئی ہے مرے تن بدن کوآگ ابھی ٹپک رہے ہیں اناء پر شکست کے قطرے گھلا رہی ہے […]

آہستگی سے شیشہِ دل پر خرام کر

میرا نہیں تو عشق کا ہی احترام کر ہے ماوراء بیاں سے مرا آٹھواں سفر ائے داستان گو ، مرا قصہ تمام کر میں تو اٹک کے رہ گیا نصف النہار پر گردش زمین کی ہی بڑھا اور شام کر رشکِ مطالعہ ، مجھے بین السطور پڑھ ائے نازِ گفتگو ، مری چپ سے کلام […]

چکھنی پڑی ہے خاک ہی آخر جبین کو

آئے نہ راس خواب ترے کور بین کو اک عکس اشک ہو کے کہیں جذب ہو گیا وحشت ٹٹولتی ہی رہی ہے زمین کو کیسے نگل گئی ہے پٹاری ، خبر نہیں مبہوت ہو کے دیکھ رہا تھا میں بین کو اُس وقت کیوں نہ روک لیا تھا مجھے کہ جب میں نے جنوں کی […]

وصل ہو ہجر ہو کہ تُو خود ہو

کچھ نہیں دل کو راس آ پایا غم رُبا بھی کوئی نہیں آیا اور نہ ہی غم شناس آ پایا تلخ کامی میں کام کون آتا وہ سراسر مٹھاس آ پایا سخت مشکل سے آ سکا لیکن دل سرِ بزمِ یاس آ پایا میں اگر تیرے پاس آیا بھی میں کہاں تیرے پاس آ پایا […]

دل واقفِ اندازِ روایاتِ کہن ہے

اس بار مگر درد کا کچھ اور چلن ہے مانا کہ تجھے عشق سے مطلب ہی نہیں ہے کیا ہو کہ یہی خانماں برباد کا فن ہے تو حسنِ مکمل ہے تو میں شاعرِ یکتاء تو وجہِ سخن بن کہ فقط محوِ سخن ہے تھا لمس ترا نرم بہت ، جھیل گیا ہوں ویسے تو […]

متاعِ جان ، تجھی سے بگاڑ بیٹھے ہیں

جنوں میں شہرِ محبت اُجاڑ بیٹھے ہیں بتا فنونِ حرب کی نئی کوئی تکنیک مرے حریف مری لے کے آڑ بیٹھے ہیں یقین ہے کہ سلامت ہے درد کی چادر گمان ہے کہ گریبان پھاڑ بیٹھے ہیں عذابِ ترکِ تمنا میں صرف دامن کیا ترے فقیر ترا عشق جھاڑ بیٹھے ہیں کہیں گے تازہ غزل […]

جہاں پہ سر تھا کبھی اب ہے سنگِ در کا نشاں

اب اس سے بڑھ کے ترے سجدہ ریز کیا کرتے عذاب یہ ہے کہ رستے میں خود ہی پڑتے تھے اب اپنے آپ سے آخر گریز کیا کرتے سلگ رہے ہیں سرِ راہِ شوق ، نقشِ قدم ہم اپنی چال بھلا اور تیز کیا کرتے کِھلے نہیں تھے کہ نظروں میں آ گئے غم کے […]

یہی کمال مرے سوختہ سخن کا سہی

چراغ ہو تو گیا ہے وہ انجمن کا سہی تمام عمر کہ یوں بھی سفر میں گزری ہے سو اب کی بار زمیں تک سفر تھکن کا سہی جواب یہ کہ فناء لُوٹ لے گی بالآخر سوال گرچہ ترے شوخ بانکپن کا سہی اسیرِ دشتِ حوادث تو پھر بھی مت کیجے غزالِ دل کو بڑا […]

رقص کیا رات بھر حدوں میں تھا

میں نہیں تھا اگر حدوں میں تھا عشق جب سلطنت پہ حاکم تھا کس قدر چین سرحدوں میں تھا رات بھر شورِ ہاؤ ہُو کر کے دل ، بوقتِ سحر حدوں میں تھا رنگ بے حد حسین تھے ہر سُو عجزِ دستِ ہنر حدوں میں تھا کُھل گئے پھر تو وحشتوں کے پر صرف پہلا […]