کیا بتلائیں بعد کسی کے آنکھوں میں کیا کیا رکھا ہے

ساری عمر نبھانا ہے جو ایسا وعدہ رکھا ہے اس کی آنکھ نے خوابوں کی تعبیریں ایسے ڈھونڈیں تھیں جیسے لوحِ حیات پہ اک کاغز کورا سا رکھا ہے چشمِ کشائی کا لمحہ تو ایسا نازک لمحہ تھا ہر سائل کے ہاتھوں پر اپنا ہی کاسہ رکھا ہے رنگ و نور کی یہ محفل تو […]

ضرب آخری جو مثل قیامت ہے ابھی تک

یعنی کہ ترا وار سلامت ہے ابھی تک ؟ وہ سامنے آ کر بھی ملاتا نہیں آنکھیں اپنے کیے پر اس کو ندامت ہے ابھی تک یعنی کہ ترے ذکر میں جو چین کی ہے وجہ وہ پیار کی سینے میں علامت ہے ابھی تک یہ کون ہے صدیوں سے جو سجدے میں مصروف یہ […]

نہ مر سکے گا یہ اس بار بھی سکون کے ساتھ

دسمبر آ کے ملایا ہے جس نے جون کے ساتھ وہ گلستان کی صورت ہرے بھرے ہیں آج جو پھول بوٹے بنائے تھے میں نے خون کے ساتھ کہ دشت میں بھی اکیلا رہا میں ساری عمر نہ چل سکی تری وحشت مرے جنون کے ساتھ میں گھر میں ساتھ ہوں سب کے مگر اکیلا […]

جلا رہے ہیں زندگی سے یہ نصیب کا چراغ

ہوائے تند! رک! بجھا نہ تو غریب کا چراغ درِ رسول پر جھکا ہوا ہوں پھر سے کبریا! عطا ہو خاک زاد کو ترے حبیب کا چراغ جہاں میں جس نے روشنی کو زاویے کئی دیے کہ اس جہاں میں کیوں بجھے گا اس ادیب کا چراغ تم اپنی اپنی ذات سے الجھ کے ہو […]

مری اداسی کا نقش پا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل

یہ غم کی راتوں کو جانتا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل کسی کی آنکھوں میں دھیرے دھیرے اتر رہا ہے نمی کا بادل قلم سے کس کے نکل رہا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل شکستہ کاغذ پر آنسوؤں کا بنا ہوا ہے جو ایک تالاب وہ میری آنکھوں سے بہہ رہا ہے اداس […]

گلی گلی میں اتر چکے ہیں کتاب آنکھوں کے زندہ نوحے

حسین چہروں کا سرخ ماتم شراب آنکھوں کے زندہ نوحے زمیں کے سینے میں زندہ ہیں جو اگر سماعت ہے سن سکو تو مری نگاہوں سے آج سن لو حجاب آنکھوں کے زندہ نوحے کہ میری غزلوں میں میری نظموں میں کرب آ کر سمٹ گیا ہے مرے قلم سے نکل رہے ہیں جناب آنکھوں […]

معجزہ یہ ہے کہ منزل کے نشاں تک پہنچے

برف کے لوگ بھی سورج کے جہاں تک پہنچے کتنے مٹی کے بدن تیز ہواؤں کے طفیل کاغذی ناؤ میں پانی کے مکاں تک پہنچے میں کہ ظلمت میں مقفل ہوں کبھی میرے خدا صبح کی پہلی کرن میرے مکاں تک پہنچے ہم وہ نادان کہ پتھر کے کھلونے لینے گھر سے نکلے بھی تو […]

ندیوں کے پانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

درد کی روانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں یاد جب وہ آتی ہے ساز بجنے لگتے ہیں پیار کی نشانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں اک دھنک اترتی ہے اس کے ساتھ آنگن میں رنگ آسمانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں لفظ گنگناتے ہیں صبح کے اجالے میں حسن نوجوانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں آج یاد رفتہ نے […]

کیسا لہجہ تھا کس حال میں وہ رہی ایک ہی سانس میں

کہنے والی کہانی مری کہہ گئی ایک ہی سانس میں یہ بھلا کیا کہ اک ایک گھونٹ اپنے اندر اترتا رہے مے اگر تو نے پینی ہے تو ساری پی ایک ہی سانس میں ایک ہی سانس میں ہے سمایا ہوا یہ جہاں اے خدا ہم نے ساری خدائی تری دیکھ لی ایک ہی سانس […]

تجھے اب کس لیے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے

جو پتے زرد ہو جائیں وہ پیڑوں پر نہیں رہتے تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے اسے جس دھوپ میں جبری مشقت کھینچ لائی ہے گھروں سے سائے بھی اس دھوپ میں باہر نہیں رہتے جھکا دے گا تری گردن […]