ہم سے ہی ایسے فکر کو پالا نہیں گیا
زیرِ زمین زر تھا نکالا نہیں گیا جن کی دعا سے پیدا ہوئی ہے شعاعِ مہر ان بستیوں میں اُس کا اُجالا نہیں گیا گو سامنے نظر کے وہ شفاف جھیل تھی دلدل سے اپنا پاؤں نکالا نہیں گیا کچھ اس لیے بھی دور حقیقت کا شہر ہے رنگوں سے آگے دیکھنے والا نہیں گیا […]