ہم سے ہی ایسے فکر کو پالا نہیں گیا

زیرِ زمین زر تھا نکالا نہیں گیا جن کی دعا سے پیدا ہوئی ہے شعاعِ مہر ان بستیوں میں اُس کا اُجالا نہیں گیا گو سامنے نظر کے وہ شفاف جھیل تھی دلدل سے اپنا پاؤں نکالا نہیں گیا کچھ اس لیے بھی دور حقیقت کا شہر ہے رنگوں سے آگے دیکھنے والا نہیں گیا […]

خوشامد کے یہ آوازے سماعت چھین لیتے ہیں

نشے طاقت کے لوگوں سے بصارت چھین لیتے ہیں اپاہج اور بھی کر دیں گی یہ بیساکھیاں تجھ کو سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں غموں کی دھوپ میں چہروں پہ رونق کس طرح آئے یہ موسم درد کے خوشیوں کی دولت چھین لیتے ہیں میں سمجھوتا بھی اس ماحول سے کیسے کروں کوئی […]

صراحی سر نگوں ، مینا تہی اور جام خالی ہے

مگر ہم تائبوں نے نیّتوں میں مے چھپالی ہے کبھی اشکوں کی صورت میں کبھی آہوں کی صورت میں نکلنے کی تمنّا نے یہی صورت نکالی ہے یہی ڈر ہے کہیں گلچیں نہ کہہ دیں یہ جہاں والے کبھی صحنِ چمن سے پھول کی پتّی اٹھا لی ہے ابھر آئی وہاں محراب تیرے آستانے کی […]

اشکِ غم و فراق ہیں گنگ و جمن کی آگ

یہ آگ ڈھونڈتی ہے تری انجمن کی آگ آرائش جمال سے پہلے ترا جمال یہ سادگی کی آگ ہے وہ بانکپن کی آگ اپنے لبوں کی آپ ہی تعریف کیجئے جب آپ کہہ رہے ہیں گلوں کو چمن کی آگ پروانوں کے پروں کی ہوا نے بجھا دیے ایسے چراغ بھی تھے کسی انجمن کی […]

جِس آستاں پہ میری جبیں کا نشاں نہیں

وہ اور آستاں ہے، ترا آستاں نہیں وہ اضطراب و شوق، وہ طرزِ بیاں نہیں میری زباں نہ ہو تو میری داستاں نہیں تیرا خیال ،تیرا تصور، ترا جمال کیوں کر کہوں شریکِ غم جاوداں نہیں کیوں بارہا سجائے گئے تیرے بام و در کیا اب بھی شوق دید مرا کامراں نہیں کچھ لوگ لوٹ […]

جو مرا ہمنوا نہیں ہوتا

وہ ترے شہر کا نہیں ہوتا شاخ پر ہیں ہرے بھرے پتّے پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا آج بھی آہنی جنوں کا حق پتھروں سے ادا نہیں ہوتا کہکشاں کو نچوڑ کر پی لیں جام پھر بھی جُدا نہیں ہوتا منصفی میں دخیل ہیں کچھ لوگ اس لئے میں بُرا نہیں ہوتا وہ بلاتے نہیں […]

ماہتابی ہیں مرے رنج و محن پانی میں

اشکِ غم ہیں کہ ستاروں کا چمن پانی میں جن خلیجوں سے گذرتی ہے ضیا دیتی ہے آپ کے عکس کی ہلکی سی کرن پانی میں موسمِ گُل میں یہی گل ہیں یہی تارے ہیں اشکِ پیہم ہیں کہ پانی کی کرن پانی میں ناخدا حق و اناالحق کی وضاحت کے لیے بادبانوں کو کہوں […]

عیاں اور بھی ہیں نہاں اور بھی ہیں

مری حسرتوں کے نشاں اور بھی ہیں پُکارو گے کس کس کو اس انجمن میں مرے نام کےمیہماں اور بھی ہیں مرے گھر کے دیوار و در کو نہ دیکھو غریبوں کے کچے مکاں اور بھی ہیں ضیاؔ صاف دامن سہی لاکھ اپنا گلابی گلابی نشاں اور بھی ہیں​

پھول سا کوئی ہم زباں اچھا

پھول اچھے نہ گلستاں اچھا غم نصیبوں کا ایک ہی آنسو بلبل و گل کے درمیاں اچھا کل نئی سوچ کی سحر ہوگی آج وہ ہم سے بدگماں اچھا ریگزاروں میں یا گلستاں میں آپ کہیے کہ میں کہاں اچھا منزلیں تو ہزار ملتی ہیں اک مسافر رواں دواں اچھا