گونجتا تھا کوئی خلا اس میں

کاش کوئی تو جھانکتا اس میں وہ جنوں اور کس کے سر جاتا میں نے ہونا تھا مبتلا اس میں ایک پاتال تھا تعاقب میں میں کہ اک روز گر گیا اس میں وہ برستا رہا بہت مجھ پر میں بہت بھیگتا رہا اس میں میری ہستی میں ایک جنگل تھا میں بہت مطمئن رہا […]

غم کو شکست دیں کہ شکستوں کا غم کریں

ہم بندگانِ عشق عجب مخمصے میں ہیں آزاد کب ہوئے ہیں غلامانِ کم سخن جو طوق تھے گلے میں سو اب بھی گلے میں ہیں تم مل چکے ہو اہلِ ہوس کو، مگر یہ ہم مصروف آج تک بھی تمہیں ڈھونڈنے میں ہیں اک نقشِ آرزو کہ جھلکتا نہیں کہیں یوں تو ہزار عکس ابھی […]

مجھ کو ملے شکست کے احساس سے نجات

ائے کاش دستِ غم مرے پرزے اڑا سکے دل کو سگانِ شہرِ ہوس نوچتے رہے سادہ دلانِ عشق فقط مسکرا سکے ائے کاش کہ فصیل بنے کربِ مرگِ دل تو بھی مرے قریب جو آئے نہ آ سکے جادو گرانِ شوق نے کر لی ہے خودکشی کم بخت عمر بھر میں یہ کرتب دکھا سکے […]

آخر غبارِ دشتِ ہزیمت میں ڈھے گئے

عشاقِ کم نصیب تری جستجو میں تھے اب ان کا زکر بھی نہ رہا داستان میں کل جو محاوروں کی طرح گفتگو میں تھے خواہش کے ساتھ ساتھ فراموش ہو گئے جو خوش گمان لوگ تری آرزو میں تھے اک برف سی رواں ہے رگ و پے میں آجکل رقصاں کبھی جنون کے شعلے لہو […]

یہ بسمل خستہ دل آتش بجاں تیرا ہے یا میرا

مسلماں خاکداں میں میہماں تیرا ہے یا میرا بجا ہے شک ترا یا رب مرے اخلاصِ طاعت پر قصور و حور کا لیکن بیاں تیرا ہے یا میرا علوم و آگہی میری ہے گرچہ فتنہ زا لیکن یہ کارِ کشفِ اسرارِ جہاں تیرا ہے یا میرا نگاہ و دل کی لغزش پر سزاوارِ سزا ہوں […]

خدا کی نعمتوں سے نعمتیں کچھ اور کر پیدا

خدا نے آنکھ دی تو کر محبت کی نظر پیدا یہ ہوتے ہیں بہ فیضِ سوزشِ قلب و جگر پیدا کہ آنکھیں خود نہیں کر سکتیں اشکوں کے گہر پیدا تری خانہ خرابی سے ہے میرے دل میں ڈر پیدا کسی صورت سے کر لے تو دلِ یزداں میں گھر پیدا ازل کے دن اٹھا […]

دل پہ اُف عاشقی میں کیا گزرا

حادثہ روز اک نیا گزرا کچھ برا گزرا، کچھ بھلا گزرا یونہی دنیا کا سلسلہ گزرا وہ ستم گر، نہ اس میں خوئے ستم پھر یہ کیوں شک سا بارہا گزرا پھر ہرے ہو گئے جراحتِ دل پھر کوئی سانحہ نیا گزرا ہو کوئی حال اہلِ محفل کا آج میں حالِ دل سنا گزرا تاب […]

نیا سلسلہ آئے دن امتحاں کا

نیا سلسلہ آئے دن امتحاں کا ہے دستورِ پارینہ بزمِ جہاں کا کرے سامنا پھر اس ابرو کماں کا یہ دیدہ تو دیکھیں دلِ نیم جاں کا کبھی تو وہ ہو گا جفاؤں سے تائب ہے اک واہمہ میرے حسنِ گماں کا سرشکِ مژہ سے کب اندازۂ غم کسے حال معلوم سوزِ نہاں کا زمیں […]

نظارہ کریں کیسے تری جلوہ گری کا

پردہ ابھی حائل ہے مری بے بصری کا اسلوب نیا راس نہیں چارہ گری کا بیمار پہ عالم ہے وہی بے خبری کا چسکا اسے اُف پڑ ہی گیا در بدری کا کیا کیجیے انساں کی اس آشفتہ سری کا یہ راہِ محبت ہے یہ کانٹوں سے بھری ہے مقدور نہیں سب کو مری ہمسفری […]

بنا ہے آپ سبب اپنی جگ ہنسائی کا

جو مشتِ خاک نے دعویٰ کیا خدائی کا وہی ہے حال نگاہوں کی نارسائی کا وہ سامنے ہیں پہ نقشہ وہی جدائی کا تمہارے در کے سوا میں کسی جگہ نہ گیا مجھے تو شوق نہیں قسمت آزمائی کا یہی زمانہ مٹانے پہ تل گیا مجھ کو جسے تھا ناز کبھی میری ہم نوائی کا […]