نہیں لیا کوئی احسانِ باغباں ہم نے

بھری بہار میں چھوڑا ہے گلستاں ہم نے سفر میں رہ گئے پیچھے مگر یہ کم ہے کیا ہر ایک موڑ پہ چھوڑے ہیں کچھ نشاں ہم نے تمھارے نام کی افشاں سے جو سجائی تھی کسی کی مانگ میں بھر دی وہ کہکشاں ہم نے بچا کے لائے تھے بس اک چراغ آندھی سے […]

خدا سے روز ازل کس نے اختلاف کیا

وہ آدمی تو نہ تھا جس نے انحراف کیا ازل سے عالمِ موجود تک سفر کر کے خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا خدا گواہ ، کہ میں نے خود آگہی کے لئے سمجھ کے خود کو حرم، عمر بھر طواف کیا رہیں گے قصرِ عقائد نہ فلسفوں کے محل جو میں نے […]

نصیب ہو جو کبھی اُس کی آرزو کرنا

متاعِ دیدہ و دل صرفِ جستجو کرنا گمان تک بھی نہ گزرے کہ غیر شاہد ہے یہ جس کا سجدہ ہے بس اُس کے روبرو کرنا ملیں گے حرفِ عبادت کو نت نئے مفہوم کبھی تم اُس سے اکیلے میں گفتگو کرنا ہزار رہزنِ ایمان سے ملے گی نجات کوئی سفر ہو عقیدت کا قبلہ […]

ملتی نہیں منزل تو مقدر کی عطا ہے

یہ راستہ لیکن کسی رہبر کی عطا ہے کب میری صفائی کوبھلا مانے گی دنیا الزام ہی جب ایسے فسوں گر کی عطا ہے جچتے نہیں آنکھوں میں شبستان و گلستاں یہ دربدری ایسے کسی در کی عطا ہے ساحل کے خزانے نہیں دامن میں ہمارے جو کچھ بھی ملا، گہرے سمندر کی عطا ہے […]

لوگ کیا کیا گفتگو کے درمیاں کھلنے لگے

ذکر یاراں چل پڑا تو راز داں کھلنے لگے پھر پڑاؤ ڈل گئے یادوں کے شامِ ہجر میں اور فصیلِ شہرِ جاں پر کارواں کھلنے لگے تنگ شہروں میں کھلے ساگر کی باتیں کیا چلیں بادِ ہجرت چل پڑی اور بادباں کھلنے لگے جب سے دل کا آئنہ شفاف رکھنا آ گیا میری آنکھوں پر […]

ہدیۂ اشک ملے، درد کی سوغات ملے

کاسۂ عشق ہے خالی کوئی خیرات ملے بھر دے کشکول سماعت کو ہمیشہ کے لئے لبِ لعلیں سے ترے ایسی کوئی بات ملے کھیل چلتا ہی رہے گرچہ لپٹ جائے بساط مات ہونی ہے تو پھر ایسی کوئی مات ملے خاک اُڑانے کو ملی وسعتِ آشوبِ جہاں غم اٹھانے کو ترے شہر میں دن رات […]

بس بہت ہو گئے نیلام، چلو لوٹ چلو

اتنے ارزاں نہ کرو دام، چلو لوٹ چلو نہ مداوا ہے کہیں جن کا، نہ امیدِ قرار ہر جگہ ہیں وہی آلام، چلو لوٹ چلو معتبر ہوتی نہیں راہ میں گزری ہوئی رات اس سے پہلے کہ ڈھلے شام، چلو لوٹ چلو ماہِ نخشب سے یہ چہرے ہیں نظر کا دھوکا چاند اصلی ہے سرِ […]

بات جو دل میں نہیں لب سے ادا کیسے کروں

میں خفا تو ہو گیا اُس سے، گلہ کیسے کروں دل کے ٹوٹے آئنے میں عکس ہے اک خواب کا قیدِ رنگ و روپ سے اُس کو رہا کیسے کروں سوچتا ہوں اک ہجومِ صد بلا کے درمیاں عافیت کے خواب کو میں واقعہ کیسے کروں روز و شب کے گنبدِ بے دَر سے مشکل […]

سنگِ ستم سے کوئی بھی شیشہ نہیں بچا

محفوظ وہ رہا جو دریچہ نہیں بچا بازیگرانِ شہر سیاست ہوئے خموش اب دیکھنے کو کوئی تماشہ نہیں بچا کیسی چڑھی ہے دھوپ سرِ شہر بد لحاظ برگد ہرے بھرے ہوئے سایا نہیں بچا پھیلاؤ کی ہوس بھرے دریا کو پی گئی پانی چڑھا تو کوئی کنارہ نہیں بچا بجھنے لگے چراغ مرے جسم و […]

رہبری کے زخموں کا چارہ گر نہیں ملتا

واپسی کے رستے میں ہمسفر نہیں ملتا شہر ہے یا خواہش کی کرچیوں کا صحرا ہے بے خراش تن والا اک بشر نہیں ملتا ہر طرف ضرورت کی اک فصیلِ نادیدہ بے شگاف ایسی ہے جس میں دَر نہیں ملتا قہقہوں کے سائے میں بے بسی کا عالم ہے مرگِ آدمیت کو نوحہ گر نہیں […]