رموزِ عشق مل جائیں ، کوئی حرفِ دعا آئے

ترے بچھڑے ہوؤں کو ہجر میں جینا ذرا آئے تھمے گردش ہی پاؤں کی اگر منزل نہیں ملتی نہ رکنے کا سبب نکلے نہ کوئی راستہ آئے وگرنہ حبس کی شدت سے دھڑکن بند ہوجاتی یہ روزن دل میں رکھا ہے کہ کچھ تازہ ہوا آئے مجھے روٹھے ہوئے کی خیریت معلوم کرنی ہے جو […]

سڑکوں پہ لگنے والی عدالت کے ذمے دار

منصف ہیں شہر بھر کی ذلالت کے ذمے دار تو چھوڑ ہر کسی کو چلا آ ہمارے پاس ہم ہیں ناں درد ! تیری کفالت کے ذمے دار اندر جو کشمکش تھی وہی مجھ کو کھا گئی موسم نہیں ہیں میری علالت کے ذمے دار آنکھوں سے لڑ رہے تھے کہ تعبیر بھی ملے کچھ […]

محفل میں جو بھی ہے ، ان کا مقام ، جانتے ہیں

صلہ بغاوتوں کا سب غلام جانتے ہیں تو آپ شہر کے مانے ہوئے رفو گر ہیں ؟ بتائیں دل کی سلائی کا کام جانتے ہیں سخن کی کس طرح قیمت وصول کرنی ہے یہ بات کچھ نئے شعراء کرام جانتے ہیں انہیں بتائیں کہ جھکنا یہاں عبادت ہے رکوعِ عشق کو جو بھی قیام جانتے […]

گِرداب ، سفر کے لئے آزار ہوئے ہیں

دریا یہ سہولت سے کہاں پار ہوئے ہیں وہ شور کہیں مل کے پرندوں نے کیا تھا جس شور پہ ہم نیند سے بیدار ہوئے ہیں اب اپنا ارادہ نہ بدل لینا کہ ہم لوگ۔ مشکل سے اجڑ جانے کو تیار ہوئے ہیں صد شکر کسی کو تو ضرورت ہے ہماری ہم لوگ ترے ہجر […]

ہم اپنی کمزوریوں کو طاقت میں ڈھالتے ہیں

گلا دباؤ تو ہم بھی آنکھیں نکالتے ہیں یہ نم رہے گا سدا میسر تو دیکھنا ہم تمام پودوں کو کیسے گریے پہ پالتے ہیں انہیں روایات کہنے والے غلط ہیں صاحب یہ بیڑیاں ہیں جو لوگ پیروں میں ڈالتے ہیں یہ داؤ سیکھا ہے ہم نے اپنے ہی دوستوں سے جسے گرانا ہو پہلے […]

لگا کے داؤ پہ رکھنا یہ نیک نامی مری

تھی بدمزاج طبیعت کی پہلی خامی مری گئی تھی دیکھنے میں رونقِ عدم آباد وہاں پہ لکھ دی گئی شہریت مقامی مری کہیں پہ رونا ہو ، میں قہقہے لگاتی ہوں یہ کار روائی ہے اے شخص انتقامی مری میں اپنی روشنی جس روز آشکار کروں چراغ کرنے لگیں گے ترے ، غلامی مری بس […]

ہجر کے کرب سے ، یوں لَف سے ، نکل آئیں گے

سازِ وحشت ہیں ، کسی دَف سے نکل آئیں گے ہاتھ پہ لکھے ہوئے حرف چھپا لو ، ورنہ سینکڑوں راز مخفف سے نکل آئیں گے اتنے دشمن تو خدایا کسی دشمن کے نہ ہوں ہاتھ جھٹکوں تو کئی کَف سے نکل آئیں گے وقت پڑنے پہ مددگار ہیں آنسو میرے ایک آواز پہ سَو […]

ماہِ کامل نہ سہی پاس ، ستارہ کوئی ہے

یہ غلط فہمی رہی ہم کو ، ہمارا کوئی ہے یہ جو بہتے ہوئے لاشے ہیں ، کہاں جاتے ہیں ؟ بول دریائے ستم تیرا کنارہ کوئی ہے ؟ بس ہوا ملتے ہی ہر یاد بھڑک اٹھتی ہے یوں سمجھ راکھ کے اندر بھی شرارا کوئی ہے کوئی دستک ہی نہ تھی اور نہ "​میں […]

اتنا ہی میرا کام تھا ، بستی سے جاؤں میں

کوئی سنے تو آخری قصہ سناؤں میں دریا عبور کرنے کو چھاؤں اجاڑ دوں پاگل ہوں ؟ پیڑ کاٹ کے ناؤ بناؤں میں اے گریہ زار زندگی کچھ دیر معذرت میرا بھی دل کیا ہے ، ذرا مسکراؤں میں رکھ لے کسی کباڑ کے مانند اپنے پاس شاید برے دنوں میں تیرے کام آؤں میں […]

ٹوٹتا دل سنبھالنے کے لئے

شکریہ ! ہجر ٹالنے کے لئے اس نے آسان کردیا رستہ ایک مشکل میں ڈالنے کیلئے آخرش زخم کھا لئے کتنے آئینوں کو اجالنے کے لئے عمر بھر قید میں رہی ہوں میں کون کہتا نکالنے کے لئے چاک پر دھر دیاگیا اک روز مجھ کو کوزے میں ڈھالنے کے لئے دل سے رخصت کیا […]