جیسی ہے بدن میں گل رخ کے ویسی ہی نزاکت باتوں میں

ہونٹوں میں ہے جتنی شیرینی اتنی ہی حلاوت باتوں میں کیا خوب توازن چلنے میں کیا خوب لطافت ہنسنے میں کیا خوب اداؤں میں شوخی کیا خوب شرارت باتوں میں آنکھوں میں ہے نشہ سا چھایا رخسار ہوئے سرخی مائل ہونٹوں پہ لرزتے ہیں ارماں پر کیف حرارت باتوں میں زینت کا طریقہ کیا کہنے […]

ہیں مرے وجود میں موجزن مری الفتوں کی نشانیاں

نہ ہوئیں نصیب جو قربتیں انہیں قربتوں کی نشانیاں تھکی ہاری شکل نڈھال سی کسی امتحاں کے سوال سی مرے جسم و جان پہ ثبت ہیں تری فرقتوں کی نشانیاں کبھی آنکھیں غیظ سے تربتر کبھی لعن طعن زبان پر مجھے میری جاں سے عزیز ہیں تری نفرتوں کی نشانیاں ہو وہ بوئے گل کہ […]

آخری حد پہ اک جنون کے ساتھ

مل دسمبر کبھی تو جون کے ساتھ میرا لکھنے کا وقت ہوتا ہے لوگ سوتے ہیں جب سکون کے ساتھ کرب _ تخلیق سہنا پڑتا ہے شعر میں سینچتی ہوں خون کے ساتھ سردیوں میں اسے میں بھیجوں گی اک سویٹر بنا ہے اون کے ساتھ میں نہیں جانتی کہ آنکھوں کا کیا تعلق ہے […]

اٹھ اٹھ کے دشمنوں نے سراہا ، کمال است

تو کب کہے گا کور نگاہا ! کمال است ہونے لگی ہے ٹیس میں کچھ اس لئے کمی زخموں پہ کوئی رکھ گیا پھاہا ، کمال است کیا خوب مجھ پہ دھر گیا الزامِ عاشقی کیوں میں نے اس کو ٹوٹ کے چاہا ، کمال است رووں تو مسکراکے کہے وہ بہت ہی خوب پاوں […]

بن گئے ہیں گلے کا ہار ترے

بھاڑ میں جائیں رشتے دار ترے چن کے بدلے سبھی چکاؤں گی گن رہی ہوں ابھی میں وار ترے کس قدر پٹیاں پڑھاتے ہیں تو بھی کھوٹا ، برے ہیں یار ترے لگ گیا ان کا دل بھی دنیا میں آج خوش خوش ہیں گریہ زار ترے یہ ہمہی تھے جو تھے عزیز بہت آج […]

خاک ہو جائے ترا شوق نمو کانپ اٹھے

ایک ہی وار پہ تو میرے عدو ! کانپ اٹھے میری آنکھوں میں کئی خواب ہوئے قتل ، سو لوگ دیکھ کر اشک کے بدلے میں لہو ، کانپ اٹھے یہ بھی قسمت تھی رہی پیاس ادھوری صاحب ہاتھ آتے ہی محبت کے سبو کانپ اٹھے چوٹ ایسی تھی کہ لرزے تھے دروبام وجود زخم […]

خیریت مرہون ہوکر رہ گئی ہے فون کی

آج کل کوئی کشش ہوتی نہیں ہے خون کی اس کی اپنی منطقیں ہیں اس کے اپنے فلسفے بھاڑ میں جھونکی ہیں اس نے ڈگریاں قانون کی اب جماعت میں مجھے آنا ہے اول کرب کی سب شقیں رٹ لی ہیں میں نے ہجر کے مضمون کی عمر بھر یہ بد گمانی کی گرہیں کھلنی […]

دشت دل میں خواہشوں کی آفرینی ، مر کہیں

تو مرے قابل نہیں شہرت کمینی ،مر کہیں تھوڑے دن تو دے مجھے مہلت سکون قلب کی میری کائر گریہ زاری ہجر بینی ، مر کہیں اے مری ہجرت کشائی چھوڑ دے پاوں مرے خود فریبی ، لامکانی ، بے زمینی ، مر کہیں بحث کرتی دل میں اگتی اک مسلسل ، بے بسی مجھ […]

دل سے یوں دھڑکنیں الجھتی ہیں

جس طرح سوکنیں الجھتی ہیں میں ہوں آسان سا ہدف ان کا روز کچھ الجھنیں الجھتی ہیں نامرادی کے جن ستاتے ہیں ہجر کی ڈائنیں الجھتی ہیں جب انہیں چپ سے باندھ دیتے ہیں خود سے پھر دولہنیں الجھتی ہیں زندگی یوں الجھ گئی جیسے ریشمی کترنیں الجھتی ہیں عشق زنجیر جس میں کومل اب […]

روز تلخی یوں پینی پڑتی ہے

جیسے چائے میں چینی پڑتی ہے کون آئے مرے تعاقب میں راہ میں بے زمینی پڑتی ہے اس قدر تو نہیں جگہ دل میں جس قدر بے یقینی پڑتی ہے اور غربت کے چھید بڑھتے ہیں یہ قبا جب بھی سینی پڑتی ہے تیرے وعدے کی پاسداری کو زندگی روز جینی پڑتی ہے شاعری چھوٹتی […]