وہ جو اک شخص مجھے طعنہء جاں دیتا ہے

مرنے لگتا ہوں تو مرنے بھی کہاں دیتا ہے تری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے تم جسے آگ کا تریاق سمجھ لیتے ہو دینے لگ جائے تو پانی بھی دھواں دیتا ہے نا روا لاکھ سہی اپنی امامت لیکن اس پہ واجب ہے […]

ٹھہرنا بھی مرا جانا شمار ہونے لگا

پڑے پڑے میں پرانا شمار ہونے لگا بہت سے سانپ تھے اس غار کے دہانے پر دل اس لئے بھی خزانہ شمار ہونے لگا ہجوم سارا رہا کر دیا گیا لیکن مرا ہی شور مچانا شمار ہونے لگا پھر ایسے ہاتھ سے مانوس ہو گئی تسبیح گنے بغیر بھی دانہ شمار ہونے لگا وہ سنگ […]

یار بجا یار نہیں رہ گئے

راستے ہموار نہیں رہ گئے خیر پرندے تو پلٹ آئیں گے لوگ تو اس پار نہیں رہ گئے تم جہاں تصویر بنے بیٹھے ہو ہم وہاں دیوار نہیں رہ گئے یہ تو ازالہ ہے نئے زخم کا اور جو آزار نہیں رہ گئے وقت سے پہلے ہوئے تیار ہم وقت پہ تیار نہیں رہ گئے […]

یہ بھی موسم کی کوئی سازش نہ ہو

ابر ہو لیکن یہاں بارش نہ ہو اس قدر بھی چاہنا کیا چاہنا عشق شدت سے ہو اور خواہش نہ ہو ایسی غربت کو خدا غارت کرے پھول بھجوانے کی گنجائش نہ ہو تم تو یوں ضد پر اتر آئے ہو آج آخری خواہش ہو فرمائش نہ ہو گل کو خوشبو سے اگر ناپا گیا […]

اس لیے لکھتا نہیں میں دل ِغمگین کا دکھ

اس لیے لکھتا نہیں میں دلِ غمگین کا دکھ کون سمجھے گا یہاں میرے مضامین کا دکھ ایک تو چیر گئی اس کی غزل دل میرا اور اس پر وہ مرے نعرہء تحسین کا دکھ اک طرف کابل و کشمیر کراچی کی آگ اک طرف شام حلب اور فلسطین کا دکھ ایک دنیا ہے دکھوں […]

ایک دو اشکوں سے کب غم کا فسوں ٹوٹتا ہے

آنکھیں جب دشت بنیں زور ِ جنوں ٹوٹتا ہے کسی انجان اذیت کا ہے یہ رد ِ عمل جب دروں جوڑتا ہوں میں تو بروں ٹوٹتا ہے تو مرے گریے کی تحویل میں کیسے آیا میں تو جس شخص سے ہنس کے بھی ملوں ٹوٹتا ہے جانے والے نے بتایا نہیں جانے سے قبل ورنہ […]

جسم میں گونجتا ہے روح پہ لکھا دکھ ہے

تو مری آنکھ سے بہتا ہوا پہلا دکھ ہے کیا کروں بیچ بھی سکتا نہیں گنجینۂ زخم کیا کروں بانٹ بھی سکتا نہیں ایسا دکھ ہے یہ تب و تاب زمانے کی جو ہے نا یارو کیجیے غور تو لگتا ہے کہ سارا دکھ ہے تم مرے دکھ کے تناسب کو سمجھتے کب ہو جتنی […]

جنوں پسند بھی ہوں اور ‘ خاک بھی کہیں اُڑا نہیں رہا

میں صرف دشت یاد کر رہا ہوں روز’ دشت جا نہیں رہا لکیریں کھینچ کھینچ وقت کی سلیٹ پر ہوئے جو ہاتھ شل حساب کر رہا ہوں ‘ کیا رہا ہے پاس میرے ؟ کیا نہیں رہا مباحثوں مذاکروں شکایتوں سے شان ِ ہجر مت گھٹا تو صاف جانتا ہے’ میں ترا نہیں ہوں ، […]

راستہ خواب کا جب نیند کو پتھریلا پڑے

زہر آنکھوں میں سیہ رات کا زہریلا پڑے تو سمجھ جانا بچھڑنے کا سمے آ پہنچا ہاتھ جب تیری کلائی پہ مرا ڈھیلا پڑے حسن ِ سادہ مری خواہش ہے سنورتے ہوئے بھی آئنہ ٹوٹے ترا عکس نہ چمکیلا پڑے کچھ نہیں پھول تو دوچار نکل آئیں گے خشک مٹی پہ اگر پیر ترا گیلا […]

سر میں ہے خاک پاؤں میں زنجیر، ہم فقیر

بیٹھے ہیں بن کے عشق کی تصویر، ہم فقیر وہ قیس تھا جو دشت کو بھاگا تھا ناصحو ہر روز تم سے ہوں گے بغل گیر ، ہم فقیر اپنے ہی خون میں رہی لت پت ہماری لاش اپنے ہی خواب کی بنے تعبیر ، ہم فقیر دریا کے ہر بھنور میں تری آنکھ کا […]