لوگ الجھتے رہے مداری سے

سانپ نکلا نہیں پٹاری سے مصرعۂ تر نکالتا ہوں میں دل کے پودوں کی آبیاری سے بیچ دیں گے سبھی خسارے تک یہ جو لہجے ہیں کاروباری سے ہم نئی لے کے بن گئے موجد اپنے اک غم پہ آہ وزاری سے میرا دشمن تو ہے کھلا دشمن مجھ کو خطرہ ہے بس حواری سے […]

مجھ میں کچھ تجھ سوا بھی شامل ہے

آسماں میں خلا بھی شامل ہے موت کی چاپ میں دمِ وقفہ زندگی کی صدا بھی شامل ہے زندگی یوں بھی کچھ عزیز نہ تھی اب ترا مدعا بھی شامل ہے میری بربادیوں میں اے ناصح کوئی میرے سوا بھی شامل ہے اے عدو! اب مرے رجز میں تو نوحہءِ کربلا بھی شامل ہے

محبتوں کے نئے زاویے دکھا رہے تھے

کہ سنگِ راہ کو ہم آئنہ بنا رہے تھے میں بدنصیب نے آخر یہ دن بھی دیکھنا تھا میں مر رہا تھا مرے دوست مسکرا رہے تھے یہ معجزہ بھی تو اندھوں کے دیس میں ہوا تھا جو دیکھ سکتے نہیں تھے، ہمیں دکھا رہے تھے ہمارے پاس مسرت کی کوئی بات نہ تھی کسی […]

مر گیا میں بھری جوانی میں

عشق تھا ہی نہیں کہانی میں موج در موج رنگ رقصاں ہیں عکس ٹھہرا ہوا ہے پانی میں اب یقین و گمان کچھ بھی نہیں سب گنوا بیٹھا بدگمانی میں خود سے اب منہ چھپائے پھرتا ہوں راز سب کہہ دیے روانی میں اپنے خوابوں پہ خاک ڈالی اور خاک لائے ہیں ہم نشانی میں […]

مرا خود سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہو رہا

ترا آئینہ ، مرا آئینہ نہیں ہو رہا ترے ہجر میں ابھی ایک شب بھی کٹی نہیں کہ گمان بھی مجھے جینے کا نہیں ہو رہا کوئی خواب رکھ کے چلا گیا مری آنکھ میں مجھے جاگنے کا بھی حوصلہ نہیں ہو رہا میری اکھڑی اکھڑی جو سانس تھی ، وہ تو چل پڑی تو […]

مرے نصیب میں محفل کی میزبانی ہے

مجھے خبر ہے کہ اْسی نے غزل سنانی ہے فقیر لوگ تھے دریا اٹھا کے لے آئے اگرچہ اس نے کہا تھا کہ آگ لانی ہے یہ لڑکھڑانا کوئی لڑکھڑانا تھوڑی ہے میں جانتا ہوں ہزیمت کسے اٹھانی ہے یہ کیا کہ آنکھ بیاں کر رہی ہے حالِ دل یہ ترجمانی بھلا کوئی ترجمانی ہے […]

ملی ہوئی ہے جو عزت، عطا سمجھتے ہیں

ہم ایسے لوگ خدا کو ، خدا سمجھتے ہیں کہاں چراغ بجھانا ہے کب جلانا ہے کہاں کہاں ہے کہاں کی ہوا سمجھتے ہیں ہمیں خبر ہے کہ جلنا ہے آج بستی نے تمھاری آگ اگلتی صداسمجھتے ہیں ہوا کے سارے مراسم سے باخبر ہیں ہم برس نہیں رہی کیوں یہ گھٹا سمجھتے ہیں زبیر […]

میرے دل کا دماغ تھا ہی نہیں

ورنہ اس کا سراغ تھا ہی نہیں مجھ کو کب تھے پسند اندھیارے میرے گھر میں چراغ تھا ہی نہیں دل کی باتوں کو کوئی جانتا کیا کوئی روشن دماغ تھا ہی نہیں روح سے خون رس رہا تھا اور میرے دامن پہ داغ تھا ہی نہیں صرف تیری ہنسی میسر تھی شہر میں کوئی […]

میں اپنی دھوپ ترے در سے کیوں گزاروں گا

تجھے گمان ہے دیوار کو پکاروں گا؟ ابھی اتارنے جانا ہے قرض مٹی کا میں تیری زلف کسی اور دن سنواروں گا یہ سر پہ لادی گئی ہے جو ریت صحرا کی میں اپنا بوجھ کسی جھیل میں اُتاروں گا یونہی اٹھایا نہیں میں نے ہاتھ میں پتھر اب اُس کا عکس دکھایا تو کھینچ […]

میں اپنی سمت تمھارے ہی دھیان جیسا ہوں

یقیں کرو مرا ،گرچہ گمان جیسا ہوں مجھے سلام کرے گی ہوا سمندر کی میں تیری ناؤ میں اک بادبان جیسا ہوں ڈھلے گا دن تو تجھے مجھ میں ڈوبنا ہو گا تْو آفتاب تو میں آسمان جیسا ہوں ہزار درد مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں میں اپنی ذات میں اک کاروان جیسا ہوں ہر […]