محور
کہ جیسے زمیں گھومتی رہتی ہے گرد محور کے اپنے مِری ذات بھی ایسے ہی گھومتی ہے ترے گرد !
معلیٰ
کہ جیسے زمیں گھومتی رہتی ہے گرد محور کے اپنے مِری ذات بھی ایسے ہی گھومتی ہے ترے گرد !
ایک اس کے سوا میں نئے سال سے اور تو کچھ نہیں کچھ نہیں مانگتا
آج جب بکس(Box) کھولا تو کافی دنوں بعد ای میل تھی اُس کی میسج تھا یہ اُس کا ’’مجبور ہوں میں مِری انگلیاں اب کبھی کرسکیں گی نہ ٹائپ ترا ایڈرِس(Adress) مرتضیٰ ایٹ دا ریٹ
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے بہار ہے شادیاں مبارک، چمن کو آبادیاں مبارک مَلَک فلک اپنی اپنی لَے میں یہ گھُر عنادل کا بولتے تھے وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھیں دھومیں اُدھر […]
ایک سہانی شام تھی شاید پائل کی جھنکار کو لے کر وہ میرے کمرے میں آئی میز پہ رکھی تاش کی ڈبیا کھول کے اُس نے سارے پتے شوخ سے اِک انداز میں آکر میری جانب پھینک دیئے تھے میں آنکھوں میں دھر حیرانی اپنی گود اور چاروں جانب بکھرے پتے دیکھ رہا تھا اینٹ […]
شہر، گلیاں، نگر، تمام اُداس چاند، تارے اُداس، شام اُداس صبح سے شام کا نظام اُداس تیرا وہ آخری سلام اُداس کیا تغیّر ہے تیرے جانے سے شہر بھر کاٹنے کو دوڑتا ہے ہر گلی اُنگلیاں اُٹھاتی ہے میں نے سوچا کبھی نہ تھا لیکن اَب تِری یاد بھی ستاتی ہے پھر تِری یاد گھیر […]
وقت نے جتنی مہلت دی تھی اُس سے سوا محسوس کیا ہے اپنی آنکھوں سے گالوں تک اُس کا لمس سجا رکھا ہے ایک گھڑی ایسی بھی گزری جس نے درد اُجال دیا ہے ہر اِک غم کو ٹال دیا ہے میرے سوہنے ڈھول سائیں نے کیسا اُسے کمال دیا ہے اُس نے اپنے ہاتھ […]
بچھڑے ہوئے لمحوں کو آواز نہیں دیتے اُجڑے ہوئے نغموں کو پھر ساز نہیں دیتے جو غم سے بکھر جائیں چُن لیتے ہیں وہ موتی ہر جان سے پیارے کو ہر راز نہیں دیتے تم سے جو محبت ہے پھر تم سے گلہ کیسا بس اتنی شکایت ہے جب دور نکل جاؤ آواز نہیں دیتے
ذات کا گنجل کھول پِیا ’’کچھ بول پِیا‘‘ اس رات کی کالی چادر کو یہ چاند ستارے اوڑھ چکے کچھ جان سے پیارے یار سجن دل توڑ چکے، مکھ موڑ چکے خود آپ بھٹکتی راہوں میں یہ تن تنہا مت رول پِیا ’’کچھ بول پِیا‘‘ وہ عشوہ و غمزہ دیکھ لیا اب رات کٹے گی […]
دل کہ اک جزیرہ ہے گہرے سرد پانی میں منجمد سفینہ ہے درد کی روانی میں برف سارا عالم ہے سرمئی سے موسم میں منجمد سے روز و شب کُہر کے نقابوں سے چہرہ تکتے رہتے ہیں اجنبی زبانوں میں اَن کہی سی کہتے ہیں اک طرف شمال کی ہفت رنگ روشنی آرزو کے پردے […]