زیادہ کٹھن ہے ترک ِ نظارہ کے کرب سے

زیادہ کٹھن ہے ترکِ نظارہ کے کرب سے اُس محوِ دید کو پسِ منظر سے دیکھنا فی الحال میں زمین کو اُوپر سے دیکھ لوں پھر تو ہے تا ابد اسے اندر سے دیکھنا میں بھی افق پہ دید جماؤں گا دن ڈھلے تم بھی زمیں کی سمت ، سمندر سے دیکھنا وہ بے دِلی […]

وہ زخم جو معمول سمجھتے تھے ، بھرے کیا؟

اب عشق بھلا اور کرامات کرے کیا؟ یہ ضِد مری ہم عمر رہی ہے کہ میں دیکھوں منظر ہے بھلا حدِ بصارت سے پرے کیا؟ کیا سوچ کے سینچے ہے یہ صدمات لہو سے ہو جائیں گے اس طور ترے پات ہرے کیا؟ اک تارِ تنفس ہے کہ لے دے کے بچا ہے دِل یہ […]

وہ مہربان جھیل فقط بھاپ رہ گئی

پیاسے لبوں کی آنچ بہت ہی شدید تھی پہنچا ہوں اپنی آخری سانسوں کی حد تلک حیرت سرائے دہر کی وسعت مزید تھی فرشِ نظر پہ رقص کناں تھی وہ اپسراء دستِ رساء میں باغِ اِرم کی کلید تھی اُبھری سکوتِ مرگ میں پازیب کی چھنک آواز تھی تری کہ بقاء کی نوید تھی تیرے […]

کس کو سامع کرے سخن میرا

رائیگاں جا رہا ہے فن میرا آنچ کچھ کم نہ تھی محبت کی اب چٹخنے لگا ہے تن میرا میں کہ اپنا ہی بن نہیں پاتا کیا کہوں گا تجھے کہ بن میرا رہنِ بے چارگی ، ترے جلوے رزقِ آشوب ، بانکپن میرا رُوح کی پیاس بجھ نہیں پاتی سخت مشکل میں ہے بدن […]

کھو چکا قبل ازیں بول کے گویائی بھی

چھین لی جائے نہ گستاخ کی بینائی بھی آگہی ، جادوئی زنبیل ہے ، جس میں سمٹی وسعتِ خواب بھی ، تعبیر کی گہرائی بھی وہ سخن پوش بھی خاموش ہے عریاں ہو کر دم بخود ہیں سرِ بازار ، تماشائی بھی کوچہِ عشق میں گم نام نہیں مر سکتا خود نُما شوق کو منظور […]

خیال

پھسلنے لگ گئے ہیں ریت کے ذرات مٹھی سے وہ ایسے عشقِ لا حاصل پہ قانع کب تلک رہتا عطائےِ دست گیری ، دست کَش ہونے کے عالم تک بس اِک احساس مانع تھا سو مانع کب تلک رہتا بھلا کب تک نظر محدود رہتی ایک منظر میں شکستِ خواب کی تکلیف کب تک جھیلتی […]

خاک تھا ، جزو ِ خاکداں ٹھہرا

خاک تھا ، جزوِ خاکداں ٹھہرا میں بہر حال رائیگاں ٹھہرا ہو گئے آر پار ہاتھ ترے میں ترے واسطے دھواں ٹھہرا درد میں کس طرح کمی ہو گی عشق کم بخت جاوداں ٹھہرا چیختا رہ گیا میں رستوں میں وقت ٹھہرا ، نہ کارواں ٹھہرا مضمحل ہو گئے قوی ، لیکن جذبہِ جستجو جواں […]

کرتا ہے جنوں شام و سحر ورق سیاہ بھی

ہے طنز مگر عشق کو احباب کی ”واہ“ بھی اشعار مرے داخلی منظر کی جھلک ہیں یہ عین سعادت بھی ہوئے اور گناہ بھی لگ جائے کہیں میری نظر ہی نہ مجھی کو بھرتی ہے تخیل کی پری ناز سے آہ بھی گلشن ہوں تو میں رشکِ خیابانِ ارم ہوں صحرا ہوں تو بے انت […]

کوہ و دامان و زمین و آسماں کچھ بھی نہیں

ہاتھ دو پھیلے ہیں جن کے درمیاں کچھ بھی نہیں حسرت و وحشت میں آتش ہو گئی بے چارگی راکھ ہے باقی جہاں دل تھا وہاں کچھ بھی نہیں خاک کا جب لمس پیشانی پہ اُترا تو کھلا خاک سب کچھ ہے جبین و آستاں کچھ بھی نہیں طاق میں اب گرد ہے یا صرف […]

دے نہیں سکتا جنوں یوں تو کوئی تاویل تک

پر ترا ہی ذکر ہے عنوان سے تفصیل تک گر چکا منظر پہ پردہ ، گل ہوئی ہے روشنی کھیل آخر کار پہنچا ، پایہِ تکمیل تک تم ہوئے عریاں تو جیسے جم گئی شمعوں کی لو دم بخود جیسے کھڑی تھی دودھیا قندیل تک ہاتھ چاہے شل ہوئے جاتے ہیں لیکن آندھیاں کر نہ […]