دھوپ میں برسات کا منظر بدلنا چاہیے
اب ہماری ذات کا منظر بدلنا چاہیے پتھروں میں زندگی کی لہر دوڑانے کے بعد برف جیسی رات کا منظر بدلنا چاہیے
معلیٰ
اب ہماری ذات کا منظر بدلنا چاہیے پتھروں میں زندگی کی لہر دوڑانے کے بعد برف جیسی رات کا منظر بدلنا چاہیے
میں جو مرتا ہوں تو پھر مجھ کو جلا دیتے ہیں یہ ستارے ، یہ غبارے ، یہ شرارے ، یہ حباب اور ہی ہستیِ فانی کا پتا دیتے ہیں
غریبوں کے مقدر میں ہمیشہ خواب رہتے ہیں اگر گستاخ ہیں بچے تو اسلمؔ حق بجانب ہیں جہاں فاقوں پہ فاقے ہوں کہاں آداب رہتے ہیں
اپنے ہر کرب کو سینے سے لگاتی ہوئی میں جگنو امید کے آنچل میں سرِ شام لیے گھر کی چوکھٹ پہ نئے دیپ جلاتی ہوئی میں
کوئی خوشبو مہک گئی ہے کیا خون دل قطرہ قطرہ گرتا ہے چشم پُرنم چھلک گئی ہے کیا
پھول کی پتی پہ شبنم سی اُتر آئی ہے شب کی تنہائی میں یادوں کی ہے سرگوشی سی گھپ اندھیرے میں دبے پاؤں سحر آئی ہے
دل کو اب اور دکھانا بھی نہیں چاہتے ہم تہمتیں ہم پہ زمانے نے لگائیں لیکن ہم ہیں پاکیزہ بتانا بھی نہیں چاہتے ہم
جستجو در بدر پھری صحرا کو گھر کرنے کے بعد قربتوں کے سبز منظر زرد کیسے ہوگئے میرے ہاتھوں کی دعا کو بے اثر کرنے کے بعد
ہم کو تیری جستجو میں دور تک جانا پڑا کیا خبر جبریلؑ کو اِس کی کہ مُشتِ خاک کو کن مراحل سے گزر کر نور تک جانا پڑا
شیر پنجرے میں بھی بے خوف و خطر رہتا ہے زیر کرتا نہیں کمزور کو داؤ اس کا جس کی بانہوں میں ہو طاقت وہ زبر رہتا ہے