جتنا جتنا آدمی مائل بہ ارزانی ہوا
اتنا اتنا نرخ اخلاصِ وفا بڑھتا گیا چاند تو اہلِ زمیں کی زد میں آ پہنچا مگر دل سے دل کا فاصلہ بڑھتا گیا ، بڑھتا گیا
معلیٰ
اتنا اتنا نرخ اخلاصِ وفا بڑھتا گیا چاند تو اہلِ زمیں کی زد میں آ پہنچا مگر دل سے دل کا فاصلہ بڑھتا گیا ، بڑھتا گیا
دل کی دھرتی اب بھی پیاسی ، جانے یہ کیا بات ہوئی روز و شب کے کوہ تراشیں ، روز کا یہ معمول ہوا مر مر کر اب صبح کریں گے ، تڑپ تڑپ کر رات ہوئی
تب سے جب جب بادل دیکھے ، دل میں اک ڈر بیٹھ گیا کیسا خستہ ، کیسا شکستہ اپنی ذات کا ایواں تھا ابھی ابھی دیوار گری تھی اور ابھی در بیٹھ گیا
پھل کے لیے پھیلی جھولی میں پیڑ سے پتھر گرتے ہیں اس کو گلشن کون کہے گا ایسا گلشن ہوتا ہے ؟ چھپے ہوئے ہیں پھن پھولوں میں ، سانپ مہکتے پھرتے ہیں
انسان کو فطرت کے اسرار سے کیا مطلب تقریر تو کرتے ہیں تعمیر نہیں کرتے گفتار کے غازی ہیں کردار سے کیا مطلب
کیا ضرورت پڑ گئی انصاف کیوں؟ منصفِ اعلی بہت دیکھے حضور اِنہی کے ہیں منفرد اہداف کیوں ؟
ہر ساغر اپنا ساغر ہے ہر محفل اپنی محفل ہے یہ بات اریبِؔ ناداں کو کس طرح کوئی سمجھائے مگر کانٹوں سے بچا بھی جو دامن پھولوں سے بچانا مشکل ہے
وہی لمحے پلٹ کر آج میرے دل کو ڈستے ہیں لبِ شیریں سے جوئے شیر کو نسبت ہے بس اتنی وہی محبوب منزل ہے وہی پُر پیچ رستے ہیں
نورِ ایماں نہ سہی ظلمتِ عصیاں ہی سہی ہائے محرومیٔ جاوید کو یہ بھی تو نہیں زندگی خواب سہی خوابِ پریشاں ہی سہی
رات کتنی ہی بڑی رات ہو ، ٹل جاتی ہے گر کوئی چاہے تو زنجیرِ درازِ ظلمت نورِ خورشید کی شمشیر میں ڈھل جاتی ہے