ممکن نہ تھا اللہ کا عرفاں ہونا
دشوار تھا یہ مرحلہ آساں ہونا اے محسنِ انسان ترے صدقے میں انسان کو آ گیا ہے انساں ہونا
معلیٰ
دشوار تھا یہ مرحلہ آساں ہونا اے محسنِ انسان ترے صدقے میں انسان کو آ گیا ہے انساں ہونا
عالم ہے خلاف اور ہوا دشمن ہے دنیا میں جلایا تھا جو احمد نے چراغ چودہ سو برس سے آج تک روشن ہے
ہے نامِ محمد تو ہے رتبہِ محمود اُمیدِ شفاعت ہے گنہ گاروں کو ہیں اشکِ ندامت مری آنکھوں کے درود
مطلوب وہی کعبۂ مقصود وہی ہے غیر کہاں صنم کدے میں موجود معبود بھی خود وہی ہے مسجود وہی
احباب سے یک دلی نہ چاہی ہم نے غم کھا کے رہے کہ فقر بدنام نہ ہو یہ عمر عزیزؔ یوں نباہی ہم نے
اور ہمت دوں سے یا الٰہی توبہ تقلید ہوائے نفس اور امید نجات اس جوش جنوں سے یا الٰہی توبہ
ایک ایک کی وضع اور مروت دیکھی دل میں کچھ ہے زباں پر کچھ ہے عزیزؔ آنکھیں کھلیں جب سے کہ حقیقت دیکھی
اتراتی ہوئی گناہ گاری آئی غم دور ہوا عزیزؔ خوش ہو خوش ہو کس شان سے مغفرت ہماری آئی
غفلت شب و روز سامنے سے نہ مٹی اب وقت اجل بہت قریب آ پہونچا یہ عمر عزیزؔ کس خرابی سے کٹی
ہر اک کو بقدرِ ذوق پہنچائے ہیں کیا شوقِ طلب ہے دیکھ پتوں کی طرف ہر شاخ سے سو ہاتھ نکل آئے ہیں