DON QUIXOTTE

ہم اپنی رنگین نظر سے شہر کے منظر دیکھ رہے تھے
آک کی بڑھیاں ہی پریاں تھیں
دھوپ طلسمِ ہوش رباء
شہر کا یہ بے ہنگم شور شرابا ہی موسیقی تھا
تند بگولے دیو کے رتھ ، اور دھول کی اک چادر محمل
رنگ محل اک کٹیا تھی اور گھاس کا اک تنکا جنگل
ایک کنیز رہی ہوگی جو آفاقی کردار ہوئی
اک دلہیز رہی ہوگی جو جادوئی دیوار ہوئی
محلوں کے آرام تیاگے اک نادیدہ خواہش پر
لوگ اگرچہ ہنستے رہتے اس سنجیدہ خواہش پر
دیس بدر ہو جانا ہم کو سیرِ ہفت اقلیم ہوا
ایک مہم جوئی کا سودا دل میں آن مقیم ہوا
لیکن ، وہ آواز جسے ہم کوہِ ندا تعبیر کیے
آخر اک چرواہے کا بے سمت بلاوا ہی ٹھہری
ہم اپنی رنگین نظر سے شہر کے منظر دیکھ رہے تھے
پر ہم کو معلوم نہ تھا
تقدیر کی ایک ہی جادو گرنی روپ بدلتی رہتی ہے
جب نیزے ٹوٹ بھی جائیں تو پن چکی چلتی رہتی ہے
چاہے ہاتھ لگام پہ ہوں اور چاہے پیر رکابوں میں
دکھ اس دنیا میں ملتے ہیں قصے صرف کتابوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]