گر گئی یوں مری توقیر کہ اب تو مجھ کو

دیکھتا بھی ہے جو کوئی تو نہیں دیکھتا ہے

شرم سے آنکھ ہر اک بار ہی جھک جاتی ہے

اور دل ہے کہ ہر اک بار وہیں دیکھتا ہے

جس کے پر نوچ لیے تو نے ، وہ طائر اب کے

آسماں دیکھنا چاہے تو زمیں دیکھتا ہے

شعر ہونے سے کہیں پہلے ہی رو پڑتا ہے

کوئی مصرعہ جو کبھی اپنے تئیں دیکھتا ہے

روح اب جسم سے بے زار ہوئی جاتی ہے

سخت نفرت سے مکانوں کو مکیں دیکھتا ہے

تو نے بازار میں عریاں مجھے کر ڈالا ہے

راہ چلتے ہوئے ہر شخص یہیں دیکھتا ہے

وہ سنورتا ہے مرے خون کو غازہ کر کے

اور دل ہے کہ اسے اور حسیں دیکھتا ہے

ان گنت جسم جنہیں دھول چٹائی میں نے

اب وہ انبوہ مجھے خاک نشیں دیکھتا ہے

حرف اب ہیں کہ اٹھاتے ہی نہیں سر اپنا

شعر جیسے کہ خلاؤں میں کہیں دیکھتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]