اردوئے معلیٰ

Search

آج عہد حاضر کے صف اول کا اردو نقاد، محقق اور ادیب گوپی چند نارنگ کا یومِ پیدائش ہے ۔

گوپی چند نارنگ(پیدائش: 11 فروری 1931ء – وفات: 15 جون 2022ء)
——
گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد، محقق اور ادیب مانا جاتا ہے۔ گو کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ دہلی میں مقیم تھے مگر وہ باقاعدگی سے پاکستان میں اردو ادبی محافل میں شریک ہوتے رہے جہاں ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو کے جلسوں اور مذاکروں میں شرکت کرنے کے لیے وہ ساری دنیا کا سفر کرتے رہتے اور انہیں سفیر اردو کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ جہاں انہیں بھارت میں پدم بھوشن کا خطاب ملا وہیں انہیں پاکستان میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ چند ماہ قبل تک وہ بھارت کے سب سے اہم ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بچپن کوئٹہ میں گزارا۔ انہوں نے سنہ 1954ء میں یونیورسٹی آف دہلی سے اردو میں ایم اے اور اسی جامعہ سے سنہ 1958ء میں لسانیات میں پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ گوپی چند نارنگ نے سنہ 1957ء میں سینٹ اسٹیفینس کالج، دہلی میں لیکچرر کے طور پہ پڑھانا شروع کیا اور 1995ء تک دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پہ تدریس سے وابستہ رہے۔ وہ آخری وقت تک دہلی یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر، پروفیسر ای میریٹس، رہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ چونسٹھ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کتابوں میں پینسالیس اردو میں، بارہ انگریزی میں اور سات ہندی میں لکھی گئی ہیں۔
15 جون 2022ء کو امریکہ میں وفات پائی ،
——
گوپی چند نارنگ: ایک بہترین ناقد اور عمدہ محقق از ڈاکٹر ریحان احمد قادری
——
ادب کی دنیا کا ایک بہترین تخلیق کار جسے دنیا گوپی چند نارنگ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ۔ ادب اس تخلیق کو کہتے ہیں جس میں کسی سچائی کا اظہار ہو جس کی زبان میں پختگی ، کیفیت ، ادا اور حسن ہو اورجس میں دل و دماغ کو متاثر کرنے کی صلاحیت موجود ہو اوریہ تمام چیزیں اردوادب میں پوری طرح موجود ہے۔ اس کے اندر میں زندگی کی حقیقتیں اور تجربات سموئے گئے ہیں۔ انہیں حقیقت کو نمایاں کرنے والوں میں ایک اہم اورموجودہ وقت کے نایاب گوہرجس کا نام گوپی چند نارنگ ہے۔ عہد حاضر کے تغیر نواز ، نئی فکریات کے رجحان ساز، بہترین ناقد عمدہ محقق ، لاثانی ادیب، دانشور عظیم ، فکر وقت، ماہر لسانیات ، اردو کے خدمت گزار، سیکولر اقدار کے علمبردار، فصاحت و بلاغت کے آبشار لشکر اردو کے سپہ سالار، ہندوستانی شعریات کے سچے بابا اور ’’بابا ادب‘‘ جیسے القاب سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو نوازا جاتا ہے۔آپ ہندوستان کے تہذیب ، ثقافت کا ایک جیتا جاگتا اورجگمگاتا ہوا آفتاب و ماہتا ب ہے۔ جس کی روشنی آج سارے اردو ادب میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان کا مسکن موجود وقت میں ہندوستان کا شہر دہلی ہے مگر وہ خود کو اس طرح مصروف رکھتے ہیں اور اردو ادب کے جلسوں ، ادبی محفلوں اور مذاکروں میں شامل ہونے کے لئے ہندوستان کے علاوہ ساری دنیا کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام الناس ان کو ایک نئے ادبی لقب سفیر اردو کے نام سے بھی یاد کرتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : خادم رزمی کا یوم وفات
——
گوپی چند نارنگ کی ولادت ۱۱؍ فروری ۱۹۳۱ئ کودکی ضلع ضلع لورالائی میں ہوئی تھی۔ یہ بلوچستان میں ہے۔ جب آپ ڈیڑھ سال کے تھے تو ان کے والدین وہاں سے کوچ کر موسیٰ خیل چلے گئے تھے۔ آپ کے خاندان کا آبائی وطن مغربی پنجاب میں جولیہ ضلع مظفر گڑھ تھا۔ یہی ان کے بزرگ صدیوں سے آباد تھے۔ اپنے بچپن کی زندگی کی سچی اور حقیقی تصویر کو اپنی زبان میں گوپی چند نارنگ صاحب نہایت ہی دلنشیں، سادہ زبان میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔ جو ملاحظہ ہو۔
’’کچھ یاد نہیں دکی کیسا گاؤ نیا شہر تھا۔ البتہ موسیٰ خیل کے کچھ دھندلے سے نقش ذہن کی سلوٹوں میں ابھی تک باقی ہیں۔ تحصیل کے مکانوں کے پیچھے کا بڑا سا باغ جس میں انار، ناشپاتی اور شفتالو کے درخت اور انگور کی بیلیں تھیں۔ چاروں طرف چھوٹے بڑے پہاڑ، مختصر سا بازار جس میں ڈاک کی لاری رکا کرتی تھی ۔ سب بچے اسی میں چڑھ جاتے اور ڈاک گھر سے بازار تک کی سیر کرتے۔ مغرب میں پتھریلی سڑک تھی جو فورٹ سندے من کو جاتی تھی۔ اس کے راستے میں ندی پر وہ پل تھا جس کے نیچے گہرے نیلے پانی میں ہم کنکر پھینکتے تو مچھلیوں کے سنہرے پر چمکنے لگتے۔ ‘‘(’’فن اور شخصیت‘‘ آپ بیتی نمبر: ص:۳۸۳)
گوپی چندنارنگ کا خاندان اپنے علاقہ کے معز زمیندار گھرانوں میں شامل تھا۔ ان کے دادا کا نام چمن لال نارنگ تھا۔ ان کے والد گرامی کا پورا نام دھرم چند نارنگ اور والدہ محترمہ کا نام ٹیکا بائی تھا۔ گوپی چند نارنگ دس بھائی بہن تھے جن میں چھ بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ بلوچستان ریونیو سروس میں ان کے والد افسر خزانہ کے عہدہ پر تھے۔ آپ کے خاندان کا بلوچستان میں رہنے کی خاص وجہ یہ تھی کہ گوپی چند نارنگ کے ماموں جان متوال چند ڈھینگر نواب قلات کے وزیر خزانہ بھی تھے۔ اور برسوں سے بلوچستان میں زندگی گزار رہے تھے۔ والد جہاں نوکری کرتے تھے وہیں کے ایک اسکول میں گوپی چند نارنگ کا داخلہ ہوا۔ ان کو اردو کا پہلا قاعدہ عبدالعزیز صاحب نے پڑھایا۔ اس وقت علاقہ کا سارا لٹریچر پشتو اور اردو میں ہوا کرتا تھا۔ یہیں سے اردو زبان کو پڑھنے کا شوق گوپی چند نارنگ کو پروان چڑھا۔ پرائمری اسکول سے تعلیم مکمل کرکے ضلع مظفرگڑھ آگئے۔ اس وقت خاص جگہوں پر ہائی اسکول ہوا کرتا تھا۔ اردو ان کا لازمی مضمون تھا اور اختیاری مضمون سنسکرت تھا۔ آپ نے میٹرک ۱۹۴۶ میں اول درجہ سے پاس کیا پھر سنڈے کالج کوئٹہ میں داخلہ لے کر اچھے نمبروں سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا تھا ۔ آپ ۱۹۴۷ میں بھائی بہنوں اور والدہ کے ہمراہ دہلی آگئے ۔ مگر ان کے والد نے ۱۹۵۶ میں ریٹائر ہونے کے بعد ہندوستان تشریف لائے۔ پھر آپ نے بی۔ اے کی تعلیم مکمل کی۔ آگے کی تعلیم کے لئے ۱۹۵۲ئ میں دہلی کالج میں ایم اے اردو میں داخلہ کروایا۔ اور اس کے بعد آپ دہلی یونیورسیٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔آپ کی پی ایچ۔ڈی کا موضوع ’’اردو شاعری میں ہندوستانی عناصر‘‘ تھا جو ۱۹۵۸ میں مکمل ہوا۔ درس و تدریس کی ابتدا آپ نے کیمپ کالج اور سینٹ اسٹیفیز کالج سے ۱۹۵۷ میں کی۔ دو سال بعد ۱۹۵۹ میں گوپی چند نارنگ دہلی یونیورسیٹی میں شعبہ اردو میں لکچرر باقاعدہ بحال ہوئے۔ پھر مزید ترقی کرتے ہوئے ۱۹۶۱ سے ۱۹۷۴ تک وہ شعبہ میں ریڈر کی حیثیت سے رہے۔ آپ نے ۱۹۶۳ سے ۱۹۶۵ تک وسکانس یونیورسیٹی (میڈیسن) اور ۱۹۶۹ میں منی سوٹا یونیورسیٹی اور ۱۹۶۸ سے ۱۹۷۰ کے درمیان پھر وسکانس یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر رہے۔ آگے بڑھتے ہوئے ۱۹۷۴ سے ۱۹۸۱ میں آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبہ اردو کے پروفیسر اور شعبہ کے صدر ہوئے۔۱۹۸۱ سے ۱۹۸۲ میں وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کا قائم مقام بنایا گیا تھا۔ آپ ۱۹۸۴ اور ۱۹۸۵ میں کروس پونڈنس کورس اردو کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے رہے۔ ۱۹۸۶ میں آپ کو سینئر موسٹ پروفیسر شعبہ اردو ہوگئے۔ ۱۹۸۶ سے ۱۹۹۰ میں نیشنل فیلو یوجی سی بن گئے ۔ ۱۹۹۷ میں آپ ناروے کی اسلو یونویرسیٹی اور راک فیلر یونیورسٹی اٹلی کے وزیٹنگ فیلو کے لیے چنے گئے۔ جب آپ دہلی یونیورسیٹی سے سبکدوش ہوگئے تو آپ کو ۱۹۹۶ سے لے کر ۱۹۹۹ میں اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیر مین بنایا گیا۔ بعدہٰ میں ۲۰۰۲ میں اندر گاندھی فیلو شپ دو سال تک آپ کو ملتی رہی ۔ سال ۲۰۰۲ کے فروری میں ساہتیہ کادی کے صدر کے لئے گوپی چند نارنگ اور مشہور و معروف ناول نگار مہا شویتا دیوی(بنگلہ زبان کی ماہر) کے بیچ معرکہ ہوا اس میں جنرل کونسل کے تمام ممبران کے کل ۹۹ ووٹ پڑے۔ اس ووٹنگ میں گوپی چند نارنگ کو ۶۶ ووٹ پڑے جبکہ مہاشو یتا دیوی کو صرف ۳۰ ووٹ ہی مل سکے۔ مہاشویتا دیوی ایک اہم ناول نگار ہیں جس کا معروف ناول ’’ہزار چور اسی کی ماں‘‘ ہے اس ناول کاترجمہ ہندوستان کی ہر بڑی زبان میں کیا جاچکا ہے۔ ان کو اپنے ناول پر ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ بھی مل چکا ہے۔ اس معرکہ آرائی میں جب گوپی چند نارنگ کی جیت ہوئی تو یہ تمام اردو ادب کی جیت تھی۔ اردو زبان والوں کے لیے یہ فخر کی بات تھی کہ ساہتیہ اکادمی دہلی میں کوئی اردو زبان کا پہلا صدر بنا۔ یہاں یہ بات ذہن نشیں کرنے کی ہے کہ ان سے پہلے آج تک کوئی ادیب یا فنکار ساہتیہ اکادمی کا صدر نہیں ہوا تھاجو افسوس ناک ہے۔ان کے صدر بنتے ہی ساہیتہ اکادمی میں اردو زبان کے لیے جتنے سیمینار گوپی چند نارنگ نے کرائے اتنے گوپی چند نارنگ سے قبل کسی نے نہیں کروایا تھا۔ سیمیناروں کی اپنی تاریخی اور ادبی حیثیت ہے۔ یہ اردو زبان کا سرمایہ عظیم ہے۔ ان کے صدر رہتے ہوئے اردو زبان میں زیادہ سے زیادہ کتابیں شائع ہوتی رہیں۔ زبان کی ترقی کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں رہے۔ آخر میں ۲۰ فروری ۲۰۰۸ کو سایتیہ اکادمی کے صدر کی کرسی سے آپ دست بردارہوگئے۔ ساہتیہ اکادمی کاجب آپ صدر منتخب کیا گیا تھا تو اردو کے ایک اور عظیم شخصیت و مشہور ادیب ، ناقد، محقق ، ناول نگار، مترجم کاراور جدیدیت کے سپہ سالار شمس الرحمن فاروقی نے اپنے خیالات و تاثرات کاا ظہار رسالہ ’’شب خون‘‘کے نمبر ۲۶۵ میں کچھ اس طرح کرتے ہوئے نظر آئے:
——
یہ بھی پڑھیں : قیوم نظر کا یومِ پیدائش
——
’’تمام دنیا کے اردو کے ادبی حلقوں میں یہ خبر انتہائی مسرت سے سنی جائے گی کہ اردو کے معروف دانشور ، مفکر ، ماہر لسانیات ، نقاد اور اردو کی خدمت میں ہمیشہ سینہ سپر رہنے والے پروفیسر گوپی چندنارنگ کو بھاری اکثریت سے ساہتیہ اکادمی کاصدر منتخب کیا گیا ہے۔ اردو کے کسی ادیب کا ایسے بین السانی قومی ادارے کا سربراہ منتخب ہونا اس تو قیر کی بھی دلیل ہے جو اردو کو ہمارے معاشرہ میں حاصل ہے۔ ہم اپنے دوست کو اس کامیابی پر مبارک باد دیتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ان کے زمانۂ انتظام میں ساہیتہ اکادی کے رشتہ اردو سے اور بھی استوار ہوگا۔ ‘‘
گوپی چند نارنگ کی محبت روز بہ روز اردو سے بڑھنے لگی۔ یہ زبان ان کی مادری نہ تھی پھر بھی اس زبان کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ اسی اردو زبان میں ایسی کشش اور ایسا جادوئی اثر ہے کہ اس نے آہستہ آہستہ اردو زبان گوپی چند نارنگ کے رگوں میں بستی چلی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ زبان ان کے خون میں بھی جاری و ساری ہے۔ اردو فقط ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے۔ یہ زبان اردو کی زندہ اور دھڑکتی ہوئی جڑ ویدک ثقافت میں موجود ہے اور اس کی جڑ کو تلاش کرتے ہوئے کہیں ہندی ریختہ، ہندوستانی اور ہندی جیسے ناموں سے جانا پہچانا جائے گا ۔ بالاخر میں اپنی اصل صورت اردو میں موجود ہے وہیں غیر ملکوں نے بھی اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر حسین زبان کو الگ نام کیمپ کہا ہے۔ دراصل زبان اردو کے لفظی معنی لشکر فوجی یا بازار کے نہیں نہ ہی یہ ترکی لفظ ہے بلکہ اردو خالص ویدک لفظ ہے، یہ لفظ اردو، اردو دو الفاظوں ’’ار ‘‘اور’’دو‘‘ کا مجموعہ ہے۔ اگر ہم ان کے معنی پر نظر دوڑائیں تو ار معنی دل اور دو کے معنی جاننا ہے۔ تصوف سے وابستگی رکھنے والے لوگ عارف باللہ کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ تمثیلا دل کو روح اور جان کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ یہی معنی دراصل اردو کے لفظی معنی ہیںکہ اس لفظ کے ذریعہ روح اور جان کو جانا جاتا ہے۔ خود شناسی خدا شناسی ہے۔ وہی پر اس کے دوسرے معنی دل دینا اور دل لینا بھی ہے۔ دل دو، دل لویا محبت دو، محبت لووغیرہ مرداد لیا جاتا ہے۔ اس قدیم ویدک پس منظر سے اکیسویں صدی کے مابعد جدیدیت میں نئے عہد کے تخلیقیت تک اردو زبان ہر دل کو جوڑنے والی گنگا جمنی کی علمبردار ہی ہے اس بات سے ہرگز انکار نہیں کر سکتے کہ اردو ہماری صدیوں کی تہذیبی کمائی ہے ۔ یہ اس ملک کی گنگا جمنی کی مشترک تہذیب کی دین ہے۔ جو ہم میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اب تک موجود ہے۔ اگر کوئی انسان اپنی تہذیب و ثقافت کو بھول جاتا ہے یا اپنی تہذیب کو ثقافت کو بالا تاک رکھ دیتا ہے تو وہ انسان گویا کہ گونگا ، بہرا ، اندھا اور بے ادب شمار کیا جاتا ہے۔ گوپی چندنارنگ کی نظر میں تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے۔ مگر اردو زبانوں کا تاج محل ہے۔ اس ضمن میں خود گوپی چند نارگ نے اپنے تاثرات و خیالات کا اظہار عالمانہ اندازمیں بیان کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں :
’’اردو ہماری صدیوں کی تہذیبی کمائی ہے۔ یہ ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کا وہ ہاتھ ہے جس نے ہمیں گڑھا ، بنایا اور سنورا ہے۔ یہ ہماری ثقافتی شناخت ہے۔ جس کے بغیر نہ صرف ہم گونگے بہرے ہیں بلکہ بے ادب بھی ہیں نے بارہا کہا کہ اردو کو محض ایک زبان کہنا اردو کے ساتھ بے انصافی ہوگی ۔ یہ ایک طرز حیات ، ایک اسلوب زیست، ایک انداز نظریہ جینے کا ایک سلیقہ و طریقہ بھی ہے۔ اس لئے کہ اردو صدیوں کے تاریخی ربط و اتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایک ایسا روشن استعارہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال کم از کم برصغیر کی زبانوںمیں نہیں ملتی۔ جولوگ اردو میری مادری زبان نہیں ، میری ددہیال اور نانیہال میں سرائکی بولی جاتی تھی۔ میری ماں دہلی ہجرت کے بعد بھی سرائکی بولتی تھی جو نہایت میٹھی، نرم اور اصلی زبان ہے۔ لیکن مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اردو میری مادری زبان سے دور ہے۔ اردو نے شروع ہی سے دوئی کا نقش میرے لاشعور سے مٹادیا ۔ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اردو میرے خون میں جاری و ساری نہیں۔ یہ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اردو میری ہڈیوں کے گودے تک کیسے اترتی چلی گئی ، یقینا کچھ تو جادو ہوگا ۔ تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے میں اردوکو زبانوں کا تاج محل کہتا ہوں اور اکثر میں محسوس کرتا ہوں ۔ زبان میرے لئے رازوں بھرا بستہ ہے۔ کیسے ہند آریائی کے بستے میں عربی، فارسی ، ترکی کے رنگ گھلتے چلے گئے اور کیسے ایک رنگا رنگ دھنک بنتی چلی گئی کہ جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک کے طول و عرض میں وہ آج لنگوا ففرینکا بھی ہے اور ایک ایسا ادبی اظہار بھی جس کے رس اور بالیدگی کو دوسری زبانیں رشک کی نظر سے دیکھتی ہیں۔‘‘(اردو زبان اور لسانیات، ص:۱۱،۱۲)
——
یہ بھی پڑھیں : افضل گوہر راؤ کا یومِ پیدائش
——
ان کی زندگی کا تخلیقی سفر کا آغاز اردو زبان میں افسانہ نگاری کے ذریعہ ہوا۔ گوپی چند نارنگ کا پہلا افسانہ بلوچستان سماچار کے نام سے کوئٹ شہر کے ہفتہ وار اخبار میں شائع ہوا۔ جب آپ اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ ان کو لکھنے کی لت لڑکپن میں ہی پڑگئی۔ پھر جب آپ ہندوستان کے دہلی میں جلوہ گر ہوئے تو یہاں بھی آپ ومتعہ افسانہ بیسویں صدی اور ریاست جیسے جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہے ۔ گوپی چند نارنگ نے ۱۹۵۳ کے بعد افسانہ نگار ی کو لکھنا چھوڑ کر تحقیق و تنقید کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کا پہلا مضمون لسان العصر اور اکبر الہ آبادی سخن نہوی اور طرفداروں کے درمیان رسالہ ’’نگار‘‘ میں ۱۹۵۳ میں شائع ہوا۔ اور تخلیق و تنقیدی سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ آپ کی پہلی تصنیف ’’ہندوستانی قصوں سے ماخوذاردو مثنویاں‘‘ ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ۱۹۵۹ پھر دوسری بار ۱۹۶۱ میں جاری ہوئی۔ یہ وہ کتاب ہے جس پر ان کو ۱۹۶۲ میں غالب ایوارڈ سے نوازا گیاتھا ۔گوپی چند نارنگ کو ان انعامات و اعزازات کے سال در سال اس طرح انعامات ملتے چلے گئے جن کا ذکر میں کرتا چلوں(۱) عالمی فروغ اردو ایوارڈ (دوحہ) سے ۱۹۹۸ میں نوازا گیا۔ (۲) ۱۹۷۷ میں گوپی چند نارنگ کو اقبال پر کام کرنے کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے نیشنل گولڈمیڈل سے نوازا گیا (۳) ہندوستان سے ۲۰۰۴ میں پدم بھوشن اور ۱۹۹۰ میں پدم شری سے سرفراز کیا گیا تھا (۴) مسلم یونیورسیٹی نے سال ۲۰۰۹ میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی نے ۲۰۰۸ میں اور سنٹرل یونیورسیٹی حیدر آباد نے ۲۰۰۷ میں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نواز تھا۔ (۵) گوپی چند نارنگ کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ۱۹۹۵ میں دیا گیا۔ (۶) غالب ایوارڈ،نارنگ صاحب کو ۱۹۸۵ میں ملا (۷) ۲۰۱۰ میں بہادر شاہ ظفر ایوارڈ اور بھارتیہ بھاشا پریشد ایوارڈ سے نواز گیا (۸) سال ۲۰۱۱ میں مدھیہ پردیش سے اقبال سمان سے گوپی چند نارنگ کو اور ۲۰۱۲ میں بھارتیہ گیان پیٹھ مورتی دیوی ایوارڈ سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی اس طرح کے کئی اوربھی انعامات ہیں جن کا ذکر میں نہ کرسکاہوں۔ گوپی چند کے کارناموں پر نظر ڈالئے تو ہم دیکھتے ہیں ان کی اب تک چونسٹھ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ ان کتابوں میں پینتالیس اردو زبان میں ہے بارہ انگریزی زبان میں اور سات ہندی زبان میں موجود ہیں۔ جو اپنا وقار ادبی حلقوں میں بناچکی ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے غالب معنی آفرینی : جدلیاتی وضع ، شونیتا اور شعریات کو ۲۰۱۲ میں بے مثل تحقیقی و تنقیدی کتاب غالب شناسی کے ضمن میں پیش کردی ہے جو اندھیرے میں چراغ کا کام کرتی ہے۔ یہ کتاب صدیوں تک غالبیات میں ایک راہ نما کی طرح ہے۔ پروفیسر نارنگ نے اپنی پوری زندگی ادبی تصنیفات و تالیفات کے لئے وقف کردی جس کے بیچ میں تحقیقی و تنقیدی نگارشات مرتبہ ہوکر کچھ اس طرح نظر آتے ہیں (۱) ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں (۱۹۵۹۔۱۹۶۱) (۲) کرخنداری ادبی اردو کا لسانیاتی مطالعہ انگریزی (۱۹۶۱) (۳) اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو (۱۹۶۲۔ ۱۹۶۴) (۴) ریڈز نگراں اردو پرواز انگریزی (۱۹۶۶۔ ۱۹۶۸) (۵) منثورات کیفی (۱۹۶۸) (۶) آثار محروم (۱۹۶۹) (۷) کربل کتھا کا لسانی مطالعہ (۱۹۷۰) (۸) ارمغان مالک (جلد اول و دوم (۱۹۷۲)، (۹) املا نامہ (۱۹۷۴) (۱۰) پرانوں کی کہانیاں (۱۹۷۶) (۱۱) اقبال جامعہ کی مصنفین کی نظر (۱۹۷۹) ، (۱۲) وضاحتی کتابیات (۱۹۷۶) (۱۳) سانحہ کربلا شعری استعارہ (۱۹۸۰۔۱۹۹۰) (۱۴) اردو افسانہ: روایت اور مسائل (۱۹۸۱۔۱۹۸۸) (۱۵) انیس شناسی (۱۹۸۱) (۱۶) سفر آشنا (۱۹۸۳) (۱۷) اقبال کا فن (۱۹۸۳) (۱۸) نئی کرن ،نئی روشنی، پڑھو اور بڑھو (۱۹۸۳) (۱۹) نیا اردو افسانہ تجربہ و مباحثہ (۱۹۸۸) (۲۰) وضاحتی کتابیات (۱۹۸۴) (۲۱) لغت نویسی کے مسائل (۱۹۸۵) (۲۲) انتظار حسین کے بہترین افسانہ (۱۹۸۸) (۲۳) راجندر سنگھ بیدی انگریزی (۱۹۸۸) (۲۴) اسلوبیات میر (۱۹۸۵) (۲۵) اردو کی نئی کتاب (۱۹۸۸) (۲۶) ادبی تنقید اور اسلوبیات (۱۹۸۹۔ ۱۹۹۱) اردو کی نئی کتاب (پانچویں درجہ کے لئے) (۲۷) کرشن چندر انگریزی انتھالوجی برائے ساہتیہ اکادمی (۱۹۹۰) ،ا میر خسرو کا ہندی کلام ۱۹۹۰، ہندی ایڈیشن (۱۹۹۰۔۲۰۰۰)، املا نامہ اضافہ و نظر ثانی ۱۹۹۰ ، اردو کی نئی کتاب درجہ چہارم ۱۹۹۱، لنگویز اینڈ لٹریچر انگریزی ۱۹۹۱ ، اردو کی نئی کتاب درجہ دوئم (۱۹۹۲) ، قاری اساس تنقید (۱۹۹۲) ، ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات (۱۹۹۳۔۲۰۰۷) ، بلونت سنگھ کے بہترین افسانے (۱۹۹۶) ، ڈائرکٹری اردو شعرائ مصنفین (۱۹۹۶) ، ذاکر حسین :حیات و خدمات (۱۹۹۸) مابعد جدیدیت پر مکالمہ ۱۹۹۹۔۲۰۱۲) ۔ اردوپر کھلتا دریچہ ہندی (۲۰۰۰) ،سم رچنا واد، اتر رچنا واد، یوم پراچیہ کاویہ شاستر (ہندی ۲۰۰۰) ، اردوکیسے لکھیں ہندی (۲۰۰۱) ، اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب (۲۰۰۲) ،بیسویں صدی میں اردو ادب (۲۰۰۲) ، اطلاقی تنقید ،نئے تناظر (۲۰۰۳) ،ہندوستان کی تحریک اور اردو شاعری (۲۰۰۴) ، ترقی پسندی جدیدیت، مابعد جدیدیت ((۲۰۰۴) ،جدیدیت کے بعد (۲۰۰۵) ، انیس و دبیر دو سو سالہ سیمینار (۲۰۰۵) ،ولی دکنی (تصوف) انسانیت اور محبت کا شاعر (۲۰۰۵) ، اردو کی نئی بستیاں (۲۰۰۵) اردو زبان و لسانیات (۲۰۰۶) ، سجاد ظہیر :ادبی خدمات اور ترقی پسند تحریک (۲۰۰۷) ، فکشن شعریات و تشکیل و تنقید (۲۰۰۸) فراق گورکھپوری شاعر ،نقاد ، دانشور (۲۰۰۸)،خواجہ احمد فاروقی کے خطوط گوپی چند نارنگ کے نام (۲۰۱۰) ، کاغذ آتش زدہ (۲۰۱۱) ، تپش نامہ تمنا (۲۰۱۲) آج کی کہانیاں (۲۰۱۳) ، غالب معنی آفرینی ، جدلیاتی وضع ، شونینا اور شعریات (۲۰۱۴) قابل ذکر تصنیفات و تالیفات ہے جن سے ہر عاقل فرد گوپی چند نارنگ کی تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے اور ان سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ آپ نے دل و جان سے اردو ادب کی ترقی کے لئے کوشاں رہے۔ انہوں نے بیسوی صدی سے لے کر اکیسویں صدی کے دوسری دہائی تک،اب ان کے جیسی کوئی عظیم شخصیت نظر نہیں آتی ہے جس نے اردو زبان کے افق پرکام کیا ہوا۔ اب تک جتنی کتابیں اور جتنے بھی انعامات ملے ان سے ان کی ادبی خدمات اور ان کی عظمت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی ساری زندگی ادب کی خدمت کے لئے گزار دی جو ناقابل فراموش ہے۔ اگر اس بات کا اعتراف کریں کہ موجود ہ صدی نارنگ صدی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ اور اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بین الاقوامی سطح پر جو اردو کی نئے ممالک میں جو ڈنکا بج رہا ہے وہ بھی گوپی چند نارنگ کی وجہ سے ہے ۔ ا س ادبی زبان کے لئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا۔ اردو زبان کامیں خادم ہوں اردو میری ضرورت ہے میں اردو کی ضرورت نہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو کسی بھی کام کو شہرت کے لئے نہیں کرتے۔ اگر لوگ میری باتوں پر دھیان دیتے ہیں یا جو کچھ میں کہتا ہوں اس کا کچھ نہ کچھ اثر ہوتا ہے تویہ میرے قارئین کی محبت ہے۔ اردو سے میرا معاملہ عشق کا ہے اور عشق میں سود زیاں نہیں ہوتا۔ آپ اسے شہرت کہتے ہیں ۔ میں یہ بھی جانتاہوں کہ بہت سے امور میں میری مخالفت بھی ہوتی ہے اور کئی بار بغض و عناکا سامنا بھی کرنا پڑا ہے کیونکہ اگر آپ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور اس کی پروا نہیں کرتے کہ آپ کے عملی موقف سے کون خوش ہوگا اورکون ناخوش تو دوسروں کی مصلحتوں پر ضرب بھی پڑتی ہے اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ مسئلہ علمی ہے لیکن ذاتی سطح پر اتراتے ہیں لیکن میں پیچھے مڑکر نہیں دیکھتا۔‘‘ (جدیدیت کے بعد، ص:۵۵۰)
——
یہ بھی پڑھیں : چند لمحے ہی سہی لیکن ملی ہے زندگی
——
میں اپنی بات کو زیادہ طویل نہ کر جدیدیت کے لئے گوپی چند نارنگ نے جو فکر انگیز اور بصیرت افروز خیالات و نظریات اور فکری و فنی شعور و آگہی سے مملو اپنی تحقیقی و تنقیدی تصنیفات و تالیفات سے اردو زبان ادب میں ایک موج برپا کردیا ہے ان کا ادبی کارنامہ اردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے جو کام اردو زبان وادب کے لئے کیا ہے ٹھیک وہی کام اردو زبان کے لئے کرنے ہوں تاکہ نئے راستے پیدا کئے ہیں جن میں اردو کی ترقی روز بروز ہوتی رہے۔اردو ادب کی مجلسوں میں اب جب کہیں بھی اردو زبان و ادب کا ذکر ہوگا تو وہاں لازم ہے کہ گوپی چندنارنگ کا ذکر ضرور ہوگا۔ ان کے تذکرہ کے بغیر کہیں اب تاریخ ادب اردو میں کوئی تاریخ مرتب نہیں ہوسکتی ہے اس لئے ہم اس بات کو کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے کہ گوپی چند نارنگ اردو زبان وادب کا خدمت گذار ہوتے ہوئے تاجدار اردو بھی ہیں اور اس خدمت کے عوض ان کا نام ادب میں ہمیشہ لیا جائے گا۔بس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
——
چاہتوں کا جہاں ہے اردو
راحتوں کا نشان ہے اردو
بن کے کس کا کوئی ہمدرد یہاں پر آیا
درد میرا ہی میرے کام تو اکثر آیا
——
ڈاکٹر ریحان احمد قادری ، کاشانۂ فیض ، فیض روڈ
سرائے ستار خاں ، دربھنگہ،بہار(ہندوستان)
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ