میں چیخ چیخ کے ہارا سخن کے پردے میں

مری صدا پہ کوئی کان بھی دھرے ، تب نا

میں جاں بلب ہی سہی ، آنکھ کسطرح موندوں

یہ سانس لیتا ہوا درد بھی مرے ، تب نا

میں چاہتا ہوں سنوں تیرے درد کا قصہ

مگر جنون مجھے بے زباں کرے ، تب نا

تمہارے ظرف کی مانند ، میری آنکھ نما

جگر کا زخم بھی کم بخت کچھ بھرے ، تب نا

شکست جھیل تو لی ہے شکست زادوں نے

یہ وحشتیں کبھی کم ہوں مگر ، ارے ، تب نا

تو فکر مند نہ ہو ، میں نہیں مروں گا ابھی

میں ہو سکوں ترے پہلو سےجب پرے ، تب نا

میں تجھ کو دیکھنا چاہوں تو کس طرح دیکھوں

نظر سے دور کبھی ہوں یہ ترمرے ، تب نا

میں نفرتوں سے ترے زخم چھیل سکتا تھا

مگر میں مانتا جو تیرے مشورے ، تب نا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]