میں چیخ چیخ کے ہارا سخن کے پردے میں
مری صدا پہ کوئی کان بھی دھرے ، تب نا
میں جاں بلب ہی سہی ، آنکھ کسطرح موندوں
یہ سانس لیتا ہوا درد بھی مرے ، تب نا
میں چاہتا ہوں سنوں تیرے درد کا قصہ
مگر جنون مجھے بے زباں کرے ، تب نا
تمہارے ظرف کی مانند ، میری آنکھ نما
جگر کا زخم بھی کم بخت کچھ بھرے ، تب نا
شکست جھیل تو لی ہے شکست زادوں نے
یہ وحشتیں کبھی کم ہوں مگر ، ارے ، تب نا
تو فکر مند نہ ہو ، میں نہیں مروں گا ابھی
میں ہو سکوں ترے پہلو سےجب پرے ، تب نا
میں تجھ کو دیکھنا چاہوں تو کس طرح دیکھوں
نظر سے دور کبھی ہوں یہ ترمرے ، تب نا
میں نفرتوں سے ترے زخم چھیل سکتا تھا
مگر میں مانتا جو تیرے مشورے ، تب نا