میری زباں پہ منقبتِ بو ترابؓ ہے

خورسند دل مرا ہے خوشی بے حساب ہے

پایا نبی سے شیرِ خدا کا خطاب ہے

معروف وہ بہ کنیتِ بو ترابؓ ہے

نگہِ رسولِ پاک کا وہ انتخاب ہے

خاوندِ نورِ عینِ رسالت مآب ہے

نورِ نبی پاک سے یوں بہرہ یاب ہے

جیسے ضیائے مہر سے یہ ماہتاب ہے

سر چشمۂ علوم سے وہ فیض یاب ہے

شیخِ حدیث و شارحِ ام الکتاب ہے

عالی مقام وہ ہے وہ عالی جناب ہے

پروردۂ نبی ہے فضیلت مآب ہے

دشمن ملائے آنکھ کہاں اتنی تاب ہے

چہرہ پہ وہ جلال ہے وہ رعب داب ہے

دنیائے چند روزہ میں وہ کامیاب ہے

اور آخرت میں صاحبِ حسن المآب ہے

شہرت رہی ہے اب بھی وہی آب و تاب ہے

دُرجِ صدف میں ایسا وہ اک دُرِّ ناب ہے

خیبر شکن ہے کفر کو وہ سیلِ آب ہے

مرحب تو اس کے سامنے مثلِ حباب ہے

تلوار کا دھنی ہے اسی کی ہے ذو الفقار

بھاری ہے دشمنوں پہ یہ وہ شیرِ غاب ہے

شیرِ خدا ہے اس کی فتوت ہے بے مثال

جس جنگ میں شریک ہوا فتح یاب ہے

زور آوری میں اس کے مقابل نہیں کوئی

رستم ہے زیر پاؤں میں افراسیاب ہے

صفدر ہے، مرتضیٰؓ ہے وہ حیدرؓ ہے وہ علیؓ

وہ بوریہ نشیں شہِ گردوں رکاب ہے

وہ صلح خو ہے یوں تو مگر ہاں دمِ نبرد

دشمن کے سر پہ برقِ بلا ہے عذاب ہے

وہ ہے مزاج دانِ نبی نکتہ رس ہے وہ

وہ بابِ شہرِ علمِ رسالت مآب ہے

طاعت میں اتقا میں وہ مردِ بلند نام

وہ آسمانِ زہد پہ مثل آفتاب ہے

بینا ہے وہ بصیر ہے صاحب نظر ہے وہ

دانا ہے عقل مند ہے حاضر جواب ہے

پُر پیچ مسئلوں کو کیا چٹکیوں میں حل

اہلِ خرد کو جس میں بہت اضطراب ہے

پرتو فگن رہا ہے جو خلقِ نبی پاک

ہر اک صفت میں آپ ہی اپنا جواب ہے

ہجرت کی شب حضور کے بستر پہ مرتضیٰؓ

اف بے نیازِ خطرۂ جاں محوِ خواب ہے

امت پہ اس کی آل کا احساں ہے بے شمار

رطب اللساں کہ جس کا ہر اک شیخ و شاب ہے

گدڑی میں اپنی مست ہے فقر و غنا کا شاہ

شاہانہ کرّ و فر سے شدید اجتناب ہے

وہ سرفرازِ جامِ شہادت بھی ہے خوشا

مردہ ہے کب وہ زندہ زِ روئے کتاب ہے

تو خاکِ کفشِ پائے علیؓ ہے خوشا نظرؔ

کیا کم ہے اس طرح سے بھی گر انتساب ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]