مدحت سرا ہوں تا خلشِ غم ہو جاں سے دور

توصیف ان کی یوں تو ہے حدِ بیاں سے دور

یہ خاکسار یوں ہے ترے آستاں سے دور

پیاسی زمیں ہے جیسے کہ ابرِ رواں سے دور

وہ جلوہ گاہِ ناز ہو چاہے جہاں سے دور

ہرگز نہیں مگر نگہِ عاشقاں سے دور

اس بزمِ خاکداں سے پرے آسماں سے دور

اک شب گئے حضور زمان و مکاں سے دور

آنکھوں سے دور ہو تو ہے اک سوءِ اتفاق

ہونا کہیں نہ تم مرے دل کے جہاں سے دور

پیشِ حضور کیسے کروں عرض داستاں

ہر کیف داستاں ہے مری داستاں سے دور

امت ہوئی ہے دور عبادت کے ذوق سے

صوم و صلوٰۃ و حج و زکوٰۃ و اذاں سے دور

مستِ شراب و عیش و طرب ہو کے رہ گیا

خوفِ خدا تو اب ہے دلِ مسلماں سے دور

ایماں کی شاہ رگ ہے رگِ دل سے اب جدا

سرخی حیا کی ہے نگہِ گل رخاں سے دور

گم گشتہ راہ ہو کے رہے اہلِ کارواں

خود میرِ کارواں کہ رہے کارواں سے دور

رنگِ چمن پلٹ نہ سکا دل نہ کھِل سکا

موسم خزاں کا ہو نہ سکا گلستاں سے دور

محشر میں بھول جائیں وہ تجھ کو غلط غلط

یہ بات ہے نظرؔ شہِ رحمت نشاں سے دور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]