نیا سلسلہ آئے دن امتحاں کا

نیا سلسلہ آئے دن امتحاں کا

ہے دستورِ پارینہ بزمِ جہاں کا

کرے سامنا پھر اس ابرو کماں کا

یہ دیدہ تو دیکھیں دلِ نیم جاں کا

کبھی تو وہ ہو گا جفاؤں سے تائب

ہے اک واہمہ میرے حسنِ گماں کا

سرشکِ مژہ سے کب اندازۂ غم

کسے حال معلوم سوزِ نہاں کا

زمیں دوز ہو کر رہی برقِ سوزاں

پڑا صبر آخر مرے گلستاں کا

نہ مہکے ہیں گل ہی نہ چہکے عنادل

گماں ہے بہاروں پہ دورِ خزاں کا

سنا غم کے ماروں کا قصہ کبھی جب

لگا مجھ کو ٹکڑا مری داستاں کا

جو خود کٹ گیا رہبرِ کارواں سے

خدا ہی محافظ ہے اس کارواں کا

نہ پورا ہو ہرگز نظرؔ زندگی بھر

خسارہ کہ ہے لحظۂ رائیگاں کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]